Ticker

6/recent/ticker-posts

حکمران پاکستانی عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے

 

پاکستان کے اقتدار اعلی پر قابض قوتوں اور طبقوں نے ملک کو معاشی خود انحصاری و آزادی کے لئے شروع سے ہی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ۔ معاشی وسائل خصوصاً زراعت جو کہ بنیادی معاشی زریعہ رہی ہے اور صنعت جس کی ترقی انتہائی ضروری ہے، ان دونوں شعبوں کے لیے کسی طرح کی ترجیحات کا تعین نہیں کیا۔ ان حالات میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ پر امن بقائے باھمی کی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرنے کے بجائے سامراجی ممالک خاص طور پر امریکا کے مفادات کے لئے ان کے ساتھ غیر ضروری کشیدگی پیدا کرکے سلامتی کے خطرات پیدا کیئے گئے ۔ اس وجہ سے ایک طرف سکیورٹی ادارے سیاسی اداروں سے زیادہ طاقتور ھوتے گئے اور عوام سے اقتدار اعلی چھین لیا ، تو دوسری طرف بے تحاشہ اسلحہ کی خریداری و فوجی اخراجات میں غیر ضروری اضافہ کر کے بیرونی قرضوں پر انحصار کیا گیا ۔ اس وجہ سے پاکستان قرض اور امداد دینے والے ممالک کے سامنے ایک طفیلی ریاست کا کردار ادا کر تا رہا ہے ۔ یعنی  پاکستان کو ایک پیراسائیٹ ریاست بنا دیا گیا ہے ۔ قرض اور امداد دینے والے سامراجی ممالک جب اور جس مقصد کے لیے چاہیں پاکستان کو استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ چین کو تجارتی سہولیات دیکر ان کی درآمدات کو بڑھانے کے مواقع دے کر پاکستانی منڈی پر قبضہ کرنے کے مواقع دیئے گئے ۔ یہ باتیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کو جاری کیئے گئے بیان میں کہی گئی ہیں ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ 3 سال کے عرصے میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ معاشی تباہی ہوئی ہے ۔ اس حکومت میں شامل لوگوں کی اکثریت کے معاشی اثاثے اور ان کے خاندان بھی بیرون ممالک میں مقیم ہیں ۔ وہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے مفاد میں کون سی پالیسیاں بنائیں گے ۔ پہلے دنیا میں یہ سلسلہ رہا ہے کہ مافیاز حکومتیں بناتی تھیں ، اب پاکستان میں مافیاز خود اقتدار میں ہیں ۔ آئے روز نئے نئے اسیکنڈل سامنے آتے ہیں ، جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ملکی وسائل لوٹ کر بیرون ممالک منتقل کئے جارہے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف زراعت سے وابستہ چھوٹے کاشتکار ، کسان نجی سود خوروں کے قرضوں میں جکڑتے جا رہے ہیں ۔ ملک میں  شروع کیے گئے مائکرو فنانس کے نظام میں سود اتنا زیادہ رکھا گیا ہے کہ ان کا سود نجی سود خور کے برابر ہو گیا ہے ۔ لہٰذا زراعت اس وقت ایسی صورت حال سے دو چار ہے کہ چھوٹے کسان ، کاشتکار اپنی زمینیں یا تو فروخت کر رہے ہیں یا سرکار میں موجود بڑے وڈیروں کو لیز پر دے رہے ہیں ۔ ظاہر  ہے سرکاری وڈیرے افسر شاھی کے گٹ جوڑ سے کل کو ریکارڈ میں رد و بدل کر کے یہ زمینیں ہڑپ کر لیں گے ۔ یہی صورت حال صنعت کی ہے ۔ بجلی و گیس کو مہنگا کرنے اور آئے دن ان میں اضافہ کرنے کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھتی جا رہی ہے ۔ وہ غیر ملکی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی ۔ اس کی نتیجے میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں یا بیرون ملک منتقل ھو رہی ہیں۔  اشیائے صرف کی پیداوار اور مارکیٹ پر چین کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ بیروزگاری میں شدت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ گذشتہ تین سال میں جتنی مہنگائی بڑھی ہے اس سے محنت کش خاندان تو برے حالات کا شکار ہیں لیکن درمیانہ طبقہ بھی گھریلو اخراجات پورا کرنے کے قابل نہیں رہا ۔ لہذا پورا ملک اس معاشی تباہی سے برباد ہو رہا ہے ۔ مزید یہ کہ سامراجی ادارے ائی ایم ایف کی ھدایت پر آئے دن پٹرول ، گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ۔ ان دونوں کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی میں مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سمجھتی ہے کہ پاکستان تمام پڑوسی ممالک خاص طور پر انڈیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاکر ، تجارت کے لئے راہ ہموار کرے ۔ دونوں ملکوں میں جو اختلافات ہیں ان کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرے ۔ مشرقی سرحد پر جنگی صورتِ حال  کی وجہ سے ہمارے اربوں ڈالر ، کھربوں روپے دفاع پر خرچ ہو رہے ہیں ۔ یہی صورت حال ہمارے مغربی بارڈر پر بھی ہے ۔ افغانستان میں جو نئی صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہاں سامراجی مراکز کے درمیان شدید لڑائی چل رہی ہے ۔ آنے والے دنوں میں جو لڑائی ہو گی اس میں خطرہ ہے کہ امریکہ بلیک واٹر ، داعش اور طالبان کے کرائے کشوں کی معرفت ایسی خانہ جنگی شروع کرائے گا جس کے اثرات تمام پڑوسی ممالک تک پہنچیں گے ۔ ایران نے اپنا بندوبست کر لیا ہے ۔ وہ اپنا بارڈر محفوظ کر رہا ہے۔ پاکستان اپنے بارڈر کو کتنا محفوظ کریگا اس کا اندازہ حکومتی وزراء کے بیانات سے ظاہر ھو رہا ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کرانے کے مقاصد رکھتا ہے ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سالوں سے ایسی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اپنے ملک کو تباہ کرتی آ رہی ہے ۔ پاکستان کو اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہیئے اور  افغانستان کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہیئے ۔ حالات خراب ہوتے ہی افغانستان سے پاکستان کی طرف مہاجرین کا سلسلہ نہ شروع ہو ۔ اس کو روکنے کا بندوبست کرنا چاہیئے ۔ مہاجرین نے پہلے ہی پاکستان میں صورتحال کو بہت خراب کیا ہے ۔ ہم کمیونسٹ تمام انسانوں کی زندگی کی حفاظت چاہتے ہیں ، لیکن خانہ جنگی کے اثرات اس کے نتیجے میں مہاجرین کا سلسلہ اور ان سے افغانستان کی قبائلی پسماندگی پاکستانی معاشرے پر نہ صرف برے اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ دہشتگردی کو بھی جنم دیتی ہے ۔ ان کے آنے سے پاکستان میں پسماندہ رویوں اور کلچر کو فروغ ملتا ہے ۔ پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں نہ تو مداخلت کرنی چاہیئے نہ امریکہ ، چین اور کسی اور ملک کے مددگار بن کر افغانستان میں کوئی کرائے کش کا کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ 

حکومت کی طرف سے بلوچوں کے ساتھ مزاکرات اور اس مسئلے کو حل کرنے کے ماضی کی طرح اعلانات ھونے شروع ھو گئے ہیں ۔ اگر ریاست واقعی سنجیدہ ہے؟ حالانک اسے سنجیدہ ھونا چاہیئے ، تو سب سے پہلے بلوچستان کے وسائل کو بلوچستان کے حوالے کرنا چاہیئیں ۔ بلوچستان کی اسمبلی کے انتخابات یا حکومت بنانے میں سیکورٹی اداروں کی مداخلت بند کی جائے ۔ اگر یہ مداخلت بند ہو جائے ، بلوچستان کے وسائل بلوچ عوام پر خرچ ہوں تو بلوچ آزادی پسندوں سے مزاکرات کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ عوام خود وہاں کے بدعنوان سرداروں کے خلاف جدوجہد کریں گے ۔ وہ اپنا انتظام خود کر لیں گے۔ علحیدگی کے لیئے جو تنظیمیں لڑائی لڑ رہی ہیں وہ بلوچستان کے وسائل کے لیئے لڑ رہی ہیں ۔ اپنےسیاسی اقتدار اعلیٰ کےلیئے لڑ رہی ہیں ۔ اگر ریاست وہ ان کے حوالے کرے تو لڑائی کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ یہی صورت حال پاکستان نے دوسرے صوبوں میں بھی بنائی ہوئی ہے۔ فاٹا کے علاقوں میں پھر قتل و غارت گری شروع ہو گئی ہے ۔ وہاں مبینہ طور پر الزامات لگ رہے ہیں کہ سیکورٹی ادارے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ جانی خیل میں قبائلی بزرگ کے قتل کے خلاف جو احتجاج ہو رہا تھا ابھی تک اس کے متعلق ریاستی جبر کی وجہ سے کوئی میڈیا کا ادارہ رپورٹ کرنے کے بھی قابل نہیں ہے ۔ ان کو حقوق دیئے جائیں ان کے ہونے والے نقصانات کا معاوضہ دیا جائے تو وہاں امن قائم ہوجائیگا ۔ 

لائین آف کنٹرول کے دونوں طرف کشمیر کے متعلق تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ امریکی ٹرمپ حکومت نے انڈیا ، پاکستان کے درمیان ثالث بن کر معاملہ اس طرح طے کیا ہے کہ جو انڈیا کے پاس ہے وہ انڈیا کا اور جو پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کا ۔ پاکستانی ریاست کے رویئے سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے ۔ اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے چین نے حملہ کر کے اپنی سرحد کو محفوظ کرنے کے لیے کشمیر کے ایک علاقے پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اب کشمیر تین حصوں میں بٹ چکا ہے ۔

ہمارا مؤقف ہے کہ کشمیر کو حق خود اختیاری دی جائے ۔ چین، پاکستان اور ہندوستان اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں اور تینوں علاقوں کے لوگوں کو آپس میں میل جول کی آزادی دی جائے اور انہیں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ پاکستانی کشمیر میں جو نام نہاد انتخابات ہو رہے ہیں اس میں پہلے ہی الحاق پاکستان کے لیے حلف لیا جا رہا ہے ۔ یہ کیسے انتخابات ہیں اور پاکستان نے کشمیر کی کیا حیثیت بنا دی ہے ۔ کشمیر پاکستان میں ہو کہ ہندوستان یا چین میں مقبوضہ ہیں ۔ کشمیر کو متحد ہونا چاہیئے اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ان کو خود اپنا فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہیئے ۔

 ملک کے اندر تعلیمی اداروں میں فیسوں کو بڑھا کر غریب خاندانوں خاص طور پر کسان اور محنت کش طبقے کے خاندانوں کے بچوں کے لیئے تعلیم کے دروازے بند کیئے جا رہے ہیں ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک تعلیم کی زمہ داری ریاست کو لینی چاہیئے تا کہ ملک کے کسی بھی شہری کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے اخراجات نہیں کرنے پڑیں ۔

 ملک کے اندر ایک طرف معاشی ، سماجی صورتحال اتنی خراب ہوتی جا رہی ہے کہ علحیدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان مسائل کو حل کرنے ، قوموں کو مطمئین کرنے کی بجائے فوجی چھاؤنیوں اور کیمپوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ کشمیر سے لے کر کراچی تک ایسے لگ رہا ہے کہ پورا ملک ایک گیریژن بن چکا ہے ۔ یہ سلسلہ بند کیا جائے ۔ پاکستان کو چلانے کے لیئے سیاست دانوں کو موقہ دیا جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے مسائل ، ان کی سیکیورٹی کے مسائل ، ان کے معاشی مسائل نہ یہ وردی پوش افسر شاہی حل کر سکتی ہے نہ یہ حکمران اشرافیہ حل کر سکتی ہے ۔ وہ صرف کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی پارٹیاں ملکر حل کر سکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔

لہٰذا کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں عوام سے اپیل کی گئی کہ محنت کش طبقے ، کسانوں ، طلبہ ، نوجوانوں ، خواتین  اور عام عوام کی نمائندہ پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی آواز سنیں اور ملک کے اندر نظام کی تبدیلی کی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیں ۔ چھوٹے چھوٹے معاشی حقوق کے لیے مطالبات اور جدوجہد تو کرنی چاہیئے لیکن بنیادی طور پر یہ مسائل اور مصیبتیں جس نظام کی وجہ سے ہیں اسے تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیئے

مرکزی سیکریتریٹ

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان


Post a Comment

0 Comments