Ticker

6/recent/ticker-posts

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دیومالائی شخصیت کامریڈ نازش۔

 کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دیومالائی شخصیت کامریڈ نازش

کامریڈ امام علی نازش پاکستان کی کمیونسٹ تحریک کے نامور اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دیو مالائی شخصیت کے مالک تہے۔
ان کا تعلق انڈیا کے شھر امروہ سے تہا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے۔واضح رہے کہ
 ان کی تازہ تازہ شادی ہوئی تھی. شادی کے بعد ان کو باہر گھومنے پھرنے کا شوق ہوا تو وہ مشرقی پاکستان چلے گئے۔ مشرقی پاکستان میں رشتے داروں نے کہا آپ مغربی پاکستان میں کراچی گھوم لیں۔ وہ کراچی آ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس کوئٹہ چلے گئے جہاں ان کے خاندان کا ایک آدمی میونسپلٹی میں بڑے عہدے پر افسر تہا، انہوں نے اسے کلرک بھرتی کروا دیا۔ کامریڈ کلرک کے طور پر کام کرتے رہے ساتھ ھی میونسپل ورکرز اور باقی ملازمین میں یونین سازی کا کام کیا۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ یونین نے اپنی اجرتوں و مزید سہولتوں کے لیے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
میونسپل آفیسر جو انہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے امام علی نازش کو وہاں سے جانے کا کہا۔ دراصل اس آفیسر کی بیوی کامریڈ کی رشتہ دار تھی اور انہی سے کامریڈ کو کہلوایا گیا کہ آپ واپس کراچی چلے جائیں ورنہ میری بہی نوکری چلی جائیگی۔
 انہوں نے شو ورکرز اور بیڑی ورکرز سے رابطہ کیا۔ ان میں کمیونسٹ پارٹی کی مظبوط یونین پہلے سے موجود تہیں۔ ان میں سے غالباً ایک دوست محمد علی ملباری تھا۔ وہ انہیں کمیونسٹ پارٹی کے آفس لے گیا جو لائٹ ہاؤس پر واقع تھا۔ وہاں پہنچنے پر ایک کامریڈ نے امام علی نازش کو وہیں بٹھا کر محمد علی ملباری کے ساتھ بازار کام کے لیے نکل گئے۔ کامریڈ نازش کو ھدایت کی کہ ہمارے آنے تک اندر کسی کو آنے نہیں دینا ۔ کچھ دیر بعد کسی نے دروازے پر دستک دی تو امام علی نازش نے استفسار کیا آپ کون ہیں جب انہوں نے کہا کہ فلاں دوست سے ملنا چاہتا ہوں انہوں نے جواب دیا وہ یہاں نہیں ہیں۔ ابھی بازار کے لیے نکلے ہیں. آنے والے دوست نے پوچھا میں یہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کر سکتا ہوں تو انہوں نے منع کر کے دروازہ بند کر دیا ۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد پھراسی نے دروازے پر دستک دی اور پوچھا کہ دوست آ گئے ہیں تو کامریڈ نے جواب دیا ابھی تک نہیں آئے۔ ایک بار پھر آنے والے شخص نے بیٹھنے کی اجازت مانگی تو امام علی نازش نے پہلے کی طرح منع کرتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔ کچھ دیر بعد دوست واپس آ گئے اور پوچھا ہمارے جانے کے بعد کوئی یہاں آیا تو نہیں. کامریڈ نازش نے اُس کا حلیہ بتاتے ہوئے جواب دیا کہ جی ہاں 2 بار آیا تھا اور یہاں پر آپ کا انتظار بھی کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اندر آنے کی اجازت نہیں دی تو واپس چلا گیا۔ حلیہ معلوم ھونے کے بعد وہ سمجھ گئے کہ آنے والے ساتہی حسن ناصر ہوں گے۔ سب لوگ بیٹھے ہی تھے کہ کامریڈ حسن ناصر آ گئے ۔خوش خیرآفیت کے بعد پوچھا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے کہا یہ نیا ساتھی ہے کوئٹہ سے آیا ہے۔ وہاں میونسپلٹی میں کام کرتا تھا اور یونین سازی بھی کی ، یہاںشوورکرز سے رابطے میں آئے تو محمد علی ان کو یہاں لے آئے ۔ کامریڈ حسن ناصر نے کہا کہ یہ بہت اچھا ڈسیپلین والا ساتہی ہے ان کو پارٹی ممبر شپ دی جائے اور آج سے یہ پارٹی کا کُل وقتی کارکن ہو گا۔ غالباً یہ 1950یا 51 کی ببت ہے ۔جب کامریڈ امام علی نازش پارٹی کے ممبر بنے اور کام کرنا شروع کر دیا کام دوران وہ بہت مصروف رہے اور کام میں وہ جنونے تہے۔ ان دنوں پارٹی کے خلاف راولپنڈی سازش کیس بنا اور اھم رھنما گرفتار ھوگئے۔مقدمہ چلا اور ساتہیوں کو سزائیں دی گئیں۔ 1955 میں ساتہی رھا ھونے شروع ھوگئے۔ ابہی پارٹی اس آپریشن سے سنبہلی ھی نہیں تہی کہ جنرل ایوب نے 1958 میں مارشل لاء لگادیا اور پارٹی کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ کامریڈ حسن ناصر کو گرفتار کرکے غائب کردیا گیا۔ بعد میں اسے لاھور کے شاھی قلعے میں تشدد کرکے شہید کیا گیا اور ان کی لاش غائب کردی گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلی جبری گمشدگی اور ماوراء عدالت قتل تہا۔ اس کے بعد پارٹی کا کُل پاکستان ربط ٹوٹ گیا۔ سندھ، پنجاب، مشرقی پاکستان و دیگر صوبوں میں جو لوگ پارٹی کا کام کرتے تھے وہ الگ الگ کرتے تھے رابطہ نہیں تھا۔ بہر حال اسی دوران ہی روس اور چین کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے۔ ان اختلافات پر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے طے کیا کہ ہم ان جھگڑوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیکن بعد میں پارٹی کے اندر تنازعہ کھڑا ہو گیا اور 1965 کی جنگ کے بعد ٹنڈو محمد خان میں کُل پارٹی ورکرز کانفرنس منعقد کی گئی۔ اُس وقت سندھ کے سیکرٹری کامریڈ عزیز سلام بخاری تھے۔ ان کا تھیسز تہا کہ سوویت یونین سوشل سامراج ہے اور ہمیں ماؤزے تنگ کے ساتھ کھڑا ہو کر چین کی پالیسیوں کو فالو کرنا چاہیے۔ دوسرا تھیسز کامریڈ امام علی نازش اور جمال نقوی نے تیار کیا تہا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یا تو ہمیں جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہیے اور سوویت یونین کی مذمت نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ سوویت روس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک اور قومیں آزاد ہوئیں اور کمیونسٹ تحریکوں کو مدد ملی ہے۔ لہٰذا ہمیں مذمت نہیں کرنی چاہیے ۔جس پر پارٹی میں بہت بحث چلی جس پر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم روس کی مذمت نہیں کریں گے کوشش کریں گے کہ ان جھگڑوں سے ھماری پارٹی دور رہے۔ کانفرنس میں وہ دستاویزات پاس کی گئی جو کامریڈ امام علی نازش اور جمال نقوی نے تیار کی تہی۔ اُس کے بعد سینٹرل کمیٹی کا چناؤ ہوا جس کے نتیجے میں کامریڈ امام علی نازش پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ۔اُس کے بعد عزیز سلام بخاری والے الگ ہو گئے اور دنیا میں جو کمیونسٹ پارٹیز کے اندر 63 سے تقسیم شروع ہوئی تھی وہ 65 تک مکمل ہو گئی۔ دنیا کی کمیونسٹ پارٹیاں پرو چائینہ اور پرو رشیا میں بٹ گئیں ۔کامریڈ امام علی نازش نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل بن جانے کے بعد مشرق و مغربی پاکستان میں سب کو متحد کرنے کی کوششیں کیں۔کامریڈ امام علی نازش سن 65 سے لیکر 1999 تک کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی نظریاتی و تنظیمی قیادت کرتے رہے۔ انتقال کے وقت بھی وہ پارٹی کے نظریاتی رہبر تھے۔ سوویت یونین میں گورباچوف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دنیا میں کمیونسٹ پارٹیوں کے اندر بحران پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ گوربا چوف کی تھیسز پروسٹرائیکا ،گلاس نوسٹ پر بحث شروع ہو گئی۔جس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ ہونی شروع ہو گئی ۔پاکستان میں بھی یہ بحث چلی جس کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان 3 بار ٹوٹی. پہلی بار 1987 میں اقلیت اور اکثریت کے نام پر۔ اقلیت کو مختیار باچا اور افراسیاب خٹک نے جبکہ کامریڈ امام علی نازش ، جمال نقوی اور جام ساقی نے اکثریت کو لیڈ کیا۔دوسری بار پارٹی 1989 میں تقسیم ہوئی ۔وہ ڈاکٹر اعزاز نذیر اور حسن رفیق کی قیادت میں مئی 1989 کی کانگریس میں سے آٹھ کر چلے گئے۔ تیسری مرتبہ دسمبر 1990 میں نظریاتی طور پارٹی ٹوٹ گئی جب جمال نقوی کے تھیسز کو نہیں مانا گیا تو وہ کانگریس سے یہ کھ کر بائیکاٹ کر گئے کہ دیکہتا ھوں کہ تم لوگ کیسے پارٹی چلاتے ہو۔ اُس وقت پارٹی نظریاتی طور پر تقسیم ہو چکی تھی، لیکن عملاً اگست 1991 میں سوویت یونین میں گوربا چوف کے خلاف ریڈ آرمی نے بغاوت کی جس کے بعد پارٹی میں بحث شروع ہوئی اور یہ لوگ چلے گئے۔جام ساقی کی قیادت میں لوگوں نے یلسن اور گوربا چوف کی حمایت کی اور کامریڈ اسٹالن اور سوویت یونین کے سسٹم پر تنقید کی جس میں وہ اتنا آگے نکل گئے کہ یہ تک کہنے لگے کہ مارکسزم غیر فطری ہے اس پر جمال نقوی نے مضامین لکھے. جام ساقی چونکہ جمال نقوی کی پیروی کرتے تھے تو سارے لوگ اس پر چلنے لگے۔ انہوں نے پارٹی سے الگ ھونے کے بعد انہوں نے ڈیموکریٹک فورم کی بنیاد رکھی۔ کمیونسٹ پارٹی اپنی رہنمائی کامریڈ امام علی نازش سے لیتی رہی. کامریڈ امام علی نازش کی اس نظریاتی رہنمائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پارٹی کا وجود قائم ہے۔ اس وقت اگر پاکستان میں امام علی نازش مارکسزم کے حق میں پارٹی کا جھنڈا لیکر کھڑے نہ ہوتے تو تقریباً پارٹی ختم ہو چکی ہوتی۔ آج کامریڈ امام علی نازش کے انتقال کے دن پر ہم انہیں یاد کرتے ہوئے سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس دیو مالائی شخصیت نے پارٹی کے اندر جو کردار ادا کیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی. انہوں نے برے سے برے حالات میں بھی پارٹی کا کام جاری رکھا۔





Post a Comment

0 Comments