پیراسائیٹ ریاست
امداد قاضی
ریاست پاکستان کی موجودہ صورتحال ایسی ہو چکی ہے جیسے کوئی پیراسائیٹ ہو ۔ اپنے ملک کے اندر زرائع پیداوار کو ترقی نہیں دی جا رہی ، زراعت جو ملکی معیشت کی اہم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ رہی ہے ، بحران کا شکار ہے ۔ اس وجہ سے زرمبادلہ کمانے کی بجائے اس کی درآمد پر خرچ ہو رہا ہے ملک غذائی قلت کا شکار ہے اور ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی خوراک درآمد کر رہا ہے ۔ پاکستان جو کپاس برآمد کرنے والا ملک تھا اب درآمد کرنے والا بن گیا ہے ، صنعت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ ہماری صنعتیں یہاں سے باہر کے ممالک میں منتقل ہو رہی ہیں ۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری سے بنگلہ دیش میں صنعتی ترقی ہو رہی ہے ۔ وہاں کی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے جبکہ پاکستان میں یہ دونوں مزید کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ پاکستانی ریاست اپنا ڈھانچہ بڑے سے بڑا کر رہی ہے ۔ سول حکومت کے وزراء ، مشیر اور معاونین کی گنتی کریں تو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بن جاتی ہے ۔ سول افسر شاہی ہو یا فوجی ان کے اخراجات بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور کسی صورت کم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ الٹا تمام سرکاری اداروں کی ایسی لوٹ مار ہے کہ منافع بخش ادارے خسارے کا شکار ہو کر بوجہ بنتے جارہے ہیں ۔ اس وجہ سے غریب عوام پر معاشی بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ نجکاری اور نام نہاد رائیٹ سائیزنگ کی وجہ سے روزگار ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ سارا زور بیرونی قرضے اور امداد پر ہے
کورونا وبا کے سلسلے میں تشویشناک حالت یہ ہے کہ پوری دنیا کے ممالک ، ترقی پذیر ہوں یا ترقی یافتہ ترجیحی بنیادوں پر اپنے ملک کی عوام کو کرونا وبا سے بچانے کے لیئے مفت ویکسین مہیا کر رہے ہیں ۔ جن ممالک نے اپنی ویکسین نہیں بنائی وہ خیرات میں ملنے والی ویکسین کا انتظار کرنے کی بجائے کثیر سرمایہ خرچ کر کے درآمد کر رہے ہیں ۔ کیونکہ اپنے ملک کے عوام کی جانیں بچانا ان کی ا ّولین ترجیح ہے ۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ، جہاں انسانی زندگی کی اہمیت صفر ہے اور ملک سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ ویکسین درآمد کریں اور کابینہ کی منظوری سے 1500 کی ویکسین 8400 میں بیچ کر عوام کو لوٹیں ۔ خود ریاست کو جو تحفے یا امداد میں ویکسین ملی ہیں انہیں ویکسینیشن کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی . یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ ہمارے ملک کے اندر ریاست کی بنیادیں ایک ہی محور کے گرد گھوم رہی ہیں اور وہ ہے دفاعی ادارہ جو دفاعی سے زیادہ کاروباری ادارہ بن چکا ہے ۔ زمینی ملکیت ، پراپرٹی کے کاروبار سے لیکر صنعت ، شپنگ ، ٹھیکیداری ، مالیاتی سرمایہ تک کوئی کاروبار ایسا نہیں جو وہ نہ کر رہا ہے ۔ جہاد بزنس تو دولت کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے جو سن 1980 سے نہ صرف جاری ہے بلکہ پھل پھول رہا ہے ۔ اس کا سارا منافع صرف بڑوں کے حصے میں آتا ہے ۔ اس کے باوجود دفاعی بجٹ کم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
کہتے ہیں جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا جاتا ہے ۔ اب پاکستان کی کشتی ڈوب رہی ہے ۔ تجارت ، صنعت ، زراعت خسارے میں ہے ، ایسی صورت میں فوجی بجٹ ، حکومت اور سول بیوروکریسی کے اخراجات کم کرنے چاہئیں ، جو کہ نہیں کیئے جا رہے بلکہ انہیں پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف یعنی عالمی مالیاتی سامراج (بھیڑیے )سے معاہدے کیئے گئے ہیں ۔ ان سے قرضے لے کر یہ اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں ۔ ان قرضوں سے عوام کو کچھ نہیں مل رہا بلکہ عوام ان قرضوں کی وجہ سے مہنگائی ، بیروزگاری اور نجکاری کا شکار ہےب۔ تعلیمی ادارے ، اسپتال ، سڑکیں ، بجلی ، گیس ، پانی ، اشیائے ضرورت ، نوکریاں کہیں پر بھی عوام کو سہولت میسر نہیں ۔ سڑکیں عوامی پیسوں سے بنتی ہیں وہاں ٹول پلازے کھڑے کیے ہوئے ہیں ، ان پر عوام کو لوٹا جا رہا ہے ۔ پرائیویٹ تو چھوڑیں گورنمنٹ ہسپتالوں میں علاج غیر معیاری اور مہنگا ھو گیا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ عام عوام کے لئے اولاد کو تعلیم دلانا نا ممکن ہو گیا ہے ۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے پولیس ہوتی ہے لیکن پولیس وڈیروں ، چوہدریوں کی حفاظت کر رہی ہے ۔ پرائیویٹ سیکورٹی ادارے جو دفاعی اداروں کے رٹائرڈ افسروں نے بنا رکھے ہیں ۔ عام عوام کو اپنی حفاظت کے لئے ان کے سہارے چھوڑا گیا ہے ۔ جن کے پاس سرمایہ ہو وہ یہ سہولت حاصل کریں ہر چیز پرائیویٹائیز کی جا چکی ہے یا ہو رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادارے ان کو پیسے دے رہے ہیں ۔
پاکستانی ریاست کی معاشی منصوبہ بندی مکمل طور پر آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی سامراج کے مینیجرز کے ہاتھ میں ہیں ۔ FBR جو ریوینو اکٹھا کرتا ہے ، اسٹیٹ بینک جو معاشی پالیسی ریگولیٹ کرتا ہے وہ عالمی سامراج کو دیئے جا چکے ہیں ۔ اس کے بدلے پیسے ملتے جا رہے ُن کے بتائے گئے اصولوں پر چل کر عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر خود بھی عیاشی کر ہیں اور یہ کھاتے جا رہے ہیں ۔ ا رہے ہیں اور عالمی مالیاتی سامراج کی دولت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ اٹھارویں ترمیم پر ابھی تک مکمل عملدرآمد نہیں ہوا بلکہ اسے رول بیک کرنے کی کوشش کی جاری ہے ۔ وسائل سارے مرکز کے پاس ہیں ، جس کے نتیجے میں دو تضاد بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ایک طرف مرکز اور صوبوں کا تضاد دوسری طرف عام عوام کا ریاست کے ساتھ ۔ ریاست چاہتی ہے کہ ان تضادات کا رخ موڑ دے صوبوں کے تضاد کو پنجابیوں کے خلاف کر دے ، مختلف اقوام پنجابیوں کے خلافآواز اٹھائیں ۔ جنرلوں کے خلاف آواز نہ اٹھا ئیں۔ طبقاتی لڑائی کا رخ موڑنے کے لیے مذہبی ، مسلکی تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ پاکستانی ریاست مختلف قوموں کا قید خانہ بن چکا ہے ۔ کشمیر ، گلگت بلتستان کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا ۔ انڈیا سے دشمنی کا راگ الاپ کر ، کشمیر پر انڈیا کے قبضے کا پاکستانی ریاست کو تو ایسا چورن ملا ہوا ہے کہ 73 سال سے اسے خوب استعمال کر رہی ہے ان خطرات کا پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو سیکورٹی ریاست بنا دیا گیا ہے ۔ دو سال پہلے ایک شور اٹھا کہ ہندوستان نے کشمیر پر قبضہ کر کے 370 ختم کر دیا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ انڈیا نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا ہے ۔ کشمیریوں کو حق خود اختیاری ملنی چاہیئے ۔ فوری طور پر 370 بحال ہونا چاہیئے ۔ لیکن پاکستان میں جو کشمیر ، گلگت بلتستان ہے ، کیا اسے حق خود اختیاری دے رکھی ہے ۔ گلگت بلتستان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے جس طرح آبادکاری کی جا رہی ہے شیعہ اور غیر شیعہ تضاد کو ہوا دے کر وہاں غیر شیعہ آبادی کو آباد کیا جا رہا ہے تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کیا جائے ۔ کیا یہ انہیں حق حاصل ہے ۔ یہی صورت حال کشمیر کی ہے وردی پوش ملازمت میں ہے یا ریٹائرڈ ، انہوں نے وہاں جائیدادیں بنائی ہیں ۔ شنگریلا جیسے کئی پکنک/ ٹوئرسٹ پوائنٹ کشمیر یا گلگت کی ملکیت نہیں ہیں ، بلکہ باہر کے لوگوں کی ملکیت ہیں ۔ پاکستان میں کشمیر اور گلگت کی صورت حال ہندوستان کے کشمیر کی صورتحال سے مختلف نہیں ہے ۔ فرق اتنا سا ہے کہ وہاں پراکسیز کی معرفت جنگ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے ، جس وجہ سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی شکل مسخ ہو چکی ہے ۔ پاکستانی کشمیر ، گلگت بلتستان میں قومی آزادی کی پرامن تحریکیں موجود ہیں ۔ قوتیں جمہوری جدوجہد کر رہی ہیں ۔ ان پر کئی بار تشدد کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے پرامن جدوجہد سے نہ سندھ کے مطالبات تسلیم کیئے جا رہے ہیں نہ پختون خواہ اور بلوچستان کے ، تو کشمیر ، گلگت بلتستان کی کیسے سنی جائے گی ۔ کشمیری ، گلگتی حق خود اختیاری کی جدوجہد پرامن انداز سے کر رہے ہیں ۔ سندھ، بلوچستان اور پختون خواہ کی تحریکیں بھی الگ الگ چل رہی ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے ایک اہم سوال جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان نے آزادی کس سے حاصل کرنی ہے اور آزادی کے لیئے کس سے لڑنا ہے یا سندھی اور پختون کس سے آزادی لینا چاہتے ہیں؟ نواز لیگ ، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف سے یا ریاست سے؟ یہ تمام قومیں پاکستانی ریاست سے حق خود اختیاری حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ اکیلے لڑ کر کیا اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گی ؟ ملک کے محنت کش عوام کی بھی اسی کے خلاف لڑائی ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ یہ قومیں حق خود اختیاری حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ محنت کش اور عام عوام ریاست کی ساخت تبدیل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ اس ریاست کے بدلے عوام اور قوموں کی دوست ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر ریاست کی ساخت تبدیل نہ ہوئی تو آج نہیں تو کل یہ ریاست سمیت ملک بھی اپنا وجود کھو دے گا ۔ کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ طبقاتی لڑائی ھو یا قومی حق خود اختیاری کی لڑائی ، وردی پوش قوتوں کے خلاف ہی لڑی جانی ہے ۔ تو آؤ مظلوم قومیں اور مظلوم طبقات ملکر مشترکہ لڑائی لڑیں ۔ ورنہ یہ قوتیں وسائل کو لوٹ کر اپنے کاروبار بھی چلائں گے ، سوئس بینکس میں اکاؤنٹ بنائیں گی ، پاپا جونز اور سینکڑوں پلازے اور فیکٹریاں بنائیں گے ، آسٹریلیا میں جزیرے خریدیں گے ، لاہور میں سپر سٹورز اور شاپنگ مال بھی بنائیں گے ، ساتھ ہی عالمی مالیاتی سامراج کا پیٹ بھرنے کے لیے ان کو بھی حصہ دیں گے ۔ لہٰ ذا ہماری اپیل ہے کہ مظلوم اقوام اور طبقات ملکر جدوجہد کریں بلاشک آپ ایک پارٹی میں آنے کو تیار نہیں ہیں اصولاً تو ایک جگہ اکٹھا ہونا چاہیئے کیونکہ یہ قوتیں کراچی میں دو پنجابی ، دو پختون مروا کر سندھی اور پختون کی لڑائی کروا دیں گے یہی صورت حال کوئٹہ میں ہے دو سندھی، پنجابی اور پختون مروا کر لڑائی کا رخ نسلی اور قومی بنا دیں گے ۔ لہٰ ذا ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیئے اور اس پیراسائیٹ ریاست کو تبدیل کر کے اسے فلاحی ریاست بناکر محنت کش طبقے کی نمائندہ قوت کو اقتدار دلوائیں ، جس سے قوموں کو حق خود اختیاری بھی ملے ۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ورنہ یہ پیراسائیٹ ریاست اپنا وجود بھی برقرار رکھے گی مالیاتی سامراج کی ضروریات کو بھی پورا کرے گی اور ٹٹ پونجیئے سندھی ، بلوچ ، پختون ، پنجابی ، کشمیری اپنی قوم اور عوام کی قربانی دے کر بالادست قوت کے ساتھ اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں گے ۔ تمام مظلوم قومیں قیمتی وسائل ہونے کے باوجود غربت کا شکار رہیں گی ۔ قوموں کے وسائل لٹتے رہیں گے ۔ عوام غریب ہے ، ملک کو خطرہ ہے ، معاشی بحران ہے کےنام پر ہم مزید غربت کی چکی میں پستے رہیں گے
0 Comments