آج، دنیا پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے ناولوں میں سے ایک ’’ماں‘‘ کے خالق میکسم گورکی کی سالگرہ ہے۔ وہ 28 مارچ 1868ء کو پیدا ہوئے اور 28 جون 1936ء کو وفات پائی۔ روس کے اس انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی نے اپنی تحریروں سے دنیا کے مظلوم طبقے میں امید کی ایک لہر پیدا کی۔
میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسیمووچ پیشکوف تھا۔ گورکی چار پانچ سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ۔ گورکی کی ماں نے دوسری شادی کرلی اور پھر جلد ہی د ق کا شاکار ہو کر انتقال کرگئیں۔ نانا نے گورکی کو گھر سے نکال دیا۔ پہلے گورکی کو جوتوں کی دکان پر نوکری ملی، پھر ایک جہاز کے باورچی خانے میں برتن دھو کر پیٹ پالتا رہا۔ باورچی پہلا شخص تھا جس نے نوجون گورکی کی تعلیم پر توجہ کی اور یہ اسی کا احسان تھا کہ گورکی نے ذرا پڑھنا لکھنا سیکھہ لیا۔اس کے بعد وہ ایک ایسی عورت کے پاس نوکر ہو گئے جہاں شعر و شاعری اور موسیقی کا خاصا چرچا رہتا تھا اور گورکی کو ادب سے خاص لگاؤ پیدا ہو گیا،
پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے شہر کازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور تعلیم سے مایوس ہوکر اس نے ایک نان بائی کے یہاں ملازمت کرلی۔ اس دوران گورکی کی چند ایسے طالب علموں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اس کے ذہن میں انقلاب پسندی کے بیج بو دیے۔ گورکی نے نان بائی کی دکان کو خیرباد کہا اور جنوب و جنوب مشرقی روس میں دو تین سال تک بے کار پھرتا رہا۔ 1890ء میں وہ نووگورود کے ایک وکیل کا محرر ہو گیا اور وکیل کی ہمدردی اور ہمت افزائی کی بدولت اس کی علمی اور ادبی قابلیت اتنی ہو گئی کہ وہ افسانے لکھنے لگا۔ 1892ء میں اس کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اگرچہ اس وقت وہ پھر آوارہ گردی کرنے لگا تھا لیکن اس نے افسانہ نویسی بھی جاری رکھی۔ تین سال کے اندر گورکی کو افسانہ نگاری سے خاصی آمدنی ہونے لگی۔ 1898ء میں اس کے افسانوں کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا اور کچھ عرصے کے اندر وہ روس ہی میں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ غیر ممالک میں مشہور اور ہر دل عزیز ہو گیا۔
میکسم گورکی کی ادبی حیثیت بڑھی تو پیٹرز برگ میں آکر رہنے لگا یہاں اس کے انقلاب پسندوں سے تعلقات ہو گئے۔ وہ خود کارل مارکس اور اشتراکیت کی تعلیم کا معتقد ہو گیا اور اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ سیاسی کاموں اور انقلاب انگیز خیالات ء طرزِ کی اشاعت میں صرف ہونے لگا۔ 1900میں شہر بدر کرکے نووگورود بھیج دیا گیا، مگر اس سزا کا اس کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ 1902ء میں شاہی اکادمی کا رکن منتخب ہوا اور سرکار کے حکم سے انتخاب منسوخ کر دیا گیا تو چیخوف کو جو خود کچھہ عرصہ پہلے منتخب ہوا تھا، اتنا غصہ آیا کہ اس نے رکنیت سے استعفی دے دیا۔ تین سال بعد گورکی کو قید کر دیا گیا، لیکن انقلاب روس کی تحریک کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً اسے چھوڑنا پڑا ۔ اس کے بعد گورکی فن لینڈ ہوتے ہوئے امریکا چلا گیا۔ امریکا میں اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ عورت جو گورکی کے ساتھہ آئی ہے بیوی نہیں صرف دوست ہے تو سب اس سے خفا ہو گئے۔ گورکی کو اپنی طرف یہ قدامت پرستی اتنی ُبری لگی کی اس نے امریکا والوں کے خلاف ایک کتاب لکھ ماری۔ امریکا سے گورکی روس واپس نہیں گیا بلکہ صحت کے خیال سے چند سال اٹلی کے مشہور جزیرے کیپری میں گزارے۔
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس وقت گورکی کا رویہ وہی تھا جو اکثر تعلیم یافتہ روسیوں کا، یعنی وہ کشت و خون پر افسوس کرتا تھا، اسے کسی فریق سے ہمدردی نہ تھی البتہ جب 1917 میں انقلاب کے آثار نظر آئے تو گورکی جاگا اور انقلاب کو کامیاب بنانے کی کوشش میں لگ گیا۔ تصنیف کے لیے تو ظاہر ہے یہ زمانہ موزوں نہ تھا، گورکی نے صرف تین کتابیں اور لکھیں جن میں سے ایک میں تالستائی، کورولینکو، چیخوف اورآندریئف وغیرہ سے اس کی جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کے کچھ حالات ہیں، دوسری کتاب زندگی کی شاہراہ پر اور تیسری روزنامچہ ہے۔ ان میں جگہ جگہ پر افسانے اور ناول کا رنگ دکھائی دیتا ہے، لیکن وہ متفرق مضامین، جن میں کمال دکھایا گیا ہے تو بڑھاپے کے آثار بھی بہت صاف نظر آتے ہیں۔
گورکی کے ابتدائی افسانے روس کے جاہل اور غریب طبقے کا حال اسی طرح بتاتے ہیں جیسے دریا کی تہ سے مٹی اورگھونگھے جو جال کے ساتھہ نکل آتے ہیں۔ چلکاش (1895ء)، ہم سفر (1896ء) اور مالوا (1897ء) گورکی کے پہلے افسانوں کے مجموعے ہیں اور یہ زیادہ تر اس آوارہ گردی کی یادگار ہیں جو گورکی نے اوڈیسہ اور جنوبی روس میں کی تھی۔ گورکی کا ناول ماں (1907ء) انقلابی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اوراس پر ہفلمیں بھی بنیں۔
0 Comments