Ticker

6/recent/ticker-posts

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

 دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ امریکا اور سوویت یونین کے زیر اثر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک جانب سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا اور دوسری جانب اشتراکی دنیا۔

ایسے میں امریکا میں سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کے نام منظرعام پر آئے جنھیں دنیا بھر کی رحم کی اپیلوں کے باوجود برقی کرسی پر بٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔
اس کہانی کا آغاز سنہ 1950 سے ہوتا ہے جب امریکا کے شعبۂ سراغ رسانی ایف بی آئی نے ہیری گولڈ نامی ایک جاسوس کو گرفتار کیا۔
ہیری گولڈ پر الزام تھا کہ اس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا کے ایٹمی راز روس کو فراہم کیے۔ ہیری گولڈ نے الزام قبول کیا اور کہا کہ اس مہم میں اس کی معاونت ڈیوڈ گرین گلاس نامی ایک شخص نے کی تھی۔ یہ شخص امریکی فوج میں مشین مین تھا اور لاس الاموس میں اٹامک مینوفیکچرنگ کمپنی سے وابستہ تھا۔
ڈیوڈ گرین گلاس گرفتار ہوا تو اس نے سلطانی گواہ بننے کی پیشکش کی اور اپنی جان بچانے کے لیے سارا الزام اپنی بہن ایتھل اور بہنوئی جولیس روزن برگ کے سر لگا دیا اور کہا کہ یہ دونوں کمیونسٹ ہیں اور انھوں نے اسے روس کو ایٹمی راز فراہم کرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔
جولیس اور ایتھل کی شادی سنہ 1939 میں ہوئی تھی۔ دونوں میں کشش کا اصل سبب کمیونزم سے ان کی دلچسپی تھی۔ سنہ 1940 میں جولیس امریکی فوج کے سگنل کور سے وابستہ ہوئے۔
ان پر الزام تھا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ریڈار اور ائیر کرافٹ ٹیکنالوجی سے متعلق حساس معلومات روس منتقل کرتے رہے ہیں۔
17 جولائی 1950 کو ایف بی آئی نے جولیس اور ایتھل روزن برگ کو بھی گرفتار کر لیا۔ جیل میں ان پر طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ وہ ان ساتھیوں کے نام بتا دیں جو ان کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن جولیس نے سب کچھ برداشت کیا مگر اپنی زبان نہ کھولی۔
وہ اور ایتھل آخر وقت تک اپنے جرم سے انکار کرتے رہے۔ 29 مارچ 1951 کو عدالت نے ہیری گولڈ کو 30 سال اور ڈیوڈ گرین گلاس کو 15 سال قید کی سزا سنا دی اور چند دن بعد 5 اپریل 1951 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کو موت کی سزا کا حقدار قرار دیا۔
اس سزا کے سنائے جانے کے بعد پوری عالمی رائے عامہ جولیس اور ایتھل روزن برگ کی رہائی کے لیے کوشاں ہو گئی۔
عالمی رائے عامہ کے مطابق ان دونوں میاں بیوی کو کمیونسٹ ہونے کی سزا دی جا رہی تھی اور ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر دنیا بھر کے رہنمائوں کی اپیلوں کے باوجود 19 جون 1953 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کدیاگیا۔ ان کی موت کا غم دنیا بھر میں منایا گیا۔ں 
اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض ان دنوں راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں منٹگمری جیل میں پابند سلاسل تھے۔ جیل میں روزن برگ جوڑے کے خطوط پر مشتمل ایک کتاب کسی طرح ان تک بھی پہنچی۔
وہ اس سانحے سے بے حد متاثر ہوئے اور 15 مئی1954 کو انھوں نے اپنی وہ معرکہ آرا نظم لکھی جس کا پہلا مصرعہ تھا
 ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔‘
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ادبی ناقدین نے اس نظم کو جولیس اور ایتھل روزن 
برگ کا نغمہ مرگ قرار دیا۔ جولیس اور ایتھل روزن برگ کو دنیا کے ترقی پسند سوچ رکھنے والے افراد آج بھی نہیں بھولے۔ جب بھی سرد جنگ کا ذکر ہوتا ہے ان کی یاد ہمیشہ آتی ہے۔ ان کی قربانی پر متعدد کتابیں بھی تحریر کی جا چکی ہیں اور سنہ 1978 میں کیوبا اور سنہ 2017 میں ری پبلک ٹوگو لیس نے ان کی تصاویر سے مزین ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے  




Post a Comment

0 Comments