Ticker

6/recent/ticker-posts

سردار عطاء اللہ مینگل انتقال کر گئے

 تحریر : أسیہ محسن

بلوچ قوم کے سرخیل، سابق نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما، بلوچ نیشنل پارٹی کے قائد اور بلوچستان کے پہلے وزیراعلی سردار عطاء اللہ مینگل 92 سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے، وہ ایک تاریخ ساز شخصیت نہیں بلکہ خود ایک تاریخ تھے، سردار رسول بخش مینگل کا یہ فرزند چھوٹی عمر میں مینگل قبیلے کا سردار بنا اور پھر اس کی ساری زندگی سرداری نظام کے خلاف لڑتے ہوئے گزری، 
مرحوم حاصل بزنجو کے والد اور مشہور بلوچ ترقی پسند قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو کے کہنے پر سیاست میں آئے اور انتخابات میں حصہ لیا۔
وہ 1956 میں مغربی پاکستان کی اسمبلی میں کامیاب ہوئے۔ دو سال کے بعد صدر اسکندر مرزا نے آئین کو معطل کرکے مارشل لا کا نفاذ کر دیا اور یوں جنرل ایوب اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سردار عطااللہ نے اس مارشل لا کی مخالفت کی اور اُنھیں جیل جانا پڑا۔پھر ون یونٹ مخالفت پر غداری کے مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے،
یاد رہے یہ وہ دور تھا جب قائد جمہوریت ذولفقار علی بھٹو صاحب جنرل ایوب خان کے کابینہ میں وزیر تھے۔ 
جمہوریت پسندوں اور قوم پرست رہنماؤں پر مشتمل جماعت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ ) کے پلیٹ فارم سے اُنھوں نے 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا ،
نواب خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کی تائید سے وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے۔ 
جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد تھا۔ جس کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود صاحب موجودہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ون یونٹ ٹوٹا، بلوچستان صوبہ بنا جس کے وہ پہلے منتخب وزیر اعلیٰ تھے، 
وہ یکم مئی 1972 سے 13 فروری 1973 تک صرف 10 ماہ وزیر اعلیٰ رہے، یہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک مثالی اور یادگار دور تھا، 
انہوں نے اردو کو سرکاری زبان قراردیا، تعلیم پر توجہ دی، بلوچستان کا تعلیمی بورڈ، بولان میڈیکل کالج اور انجینیئرنگ کالج قائم کیے۔
اس عرصے میں نواب خیربخش مری نے بلوچستان سے سرداری نظام کے خاتمے کی قرار داد پیش کی جس کی اُنھوں نے حمایت کی لیکن فیصلہ وفاقی حکومت کے اختیار میں تھا،۔سمری وفاقی حکومت کو بھیجی گئی لیکن ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے عمل نہیں کیا، 
بھٹو صاحب اپنے وقت کے عمران خان تھے وہ اپنے علاؤہ کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، 
انہوں نے ایک جانب پنجاب میں اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر کے ذریعے بلوچستان سے تمام پنجابی ملازمین کو وآپس بلایا جو ون یونٹ کے وقت وہاں تعینات تھے تاکہ بلوچستان کی نئی حکومت کو ناکام بنایا جائے۔‘
اور دوسری جانب سرکاری میڈیا سے پروپیگنڈا کروایا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو صوبہ بدر کردیا ہے ، 
ایک انٹرویو میں سردار عطاء اللہ مینگل نے اس سازش سے یوں پردہ اٹھایا، 
"وزیراعلیٰ پنجاب نے مطالبہ کیا کہ ان کے لوگوں کو واپس بھیجا جائے تاکہ یہاں پر نیشنل عوامی پارٹی( نیپ ) کی حکومت کمزور ہوجائے، اس وقت میں نے پولیس کے لیے بڑی دعوت کی اور اس دوران میں نے ان سے کہا کہ میں آپ لوگوں کو پہلے سے زیادہ مراعات اور تنخواہ دوں گا۔ آپ لوگ پنجاب میں جاکر خوار ہو جاؤ گے اس لیے آپ یہی رہیں۔ میں نے کسی کو بھی نہیں نکالا ان کو پنجاب نے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد واپس طلب کیا تھا۔ جس کا پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہیں میں نے نکالا"
10 فروی 1973 کو سکیورٹی فورسز نے اسلام آباد میں واقع عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بلوچ مزاحمت کاروں کے لیے بھیجا گیا تھا۔
اس کو بنیاد بنا کر 13 فروری کو بلوچستان میں 30 دنوں کے لیے صدارتی نظام نافذ کرکے نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگایا گیا اور بلوچستان پر فوج کشی کردی گئی،
سردار عطااللہ مینگل کے بقولِ بھٹو روز اول سے نیپ کی حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ 
اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے خاطر حب الوطنی کا یہ کارنامہ سر انجام دینے والے نواب اکبر بگٹی اور ذولفقار علی بھٹو کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
خان عبدلولی خان ، 
حبیب جالب، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل اور نواب خیربخش مری سمیت نیپ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس کو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بھٹو نے میرے والد رؤف وارثی جو نیپ میں تھے اور بلوچستان میں نیپ کی حکومت کی مددکررہے تھے کو بھی کرفٹار کر نے کی کوشش کی تویل عرسہ پر انہیں نآکا می رہی
کراچی میں اسیری کے دوران 6 فروری 1976 کواس کے بیٹے اسد مینگل کے گمشدگی کا واقعہ پیش آیا، 
ذوالفقار علی بھٹو اپنی خود نوشت 'افواہیں اور حقیقت' میں لکھتے ہیں کہ انھیں سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی نے ٹیلی فون پر بتایا کہ شہر میں کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہے، 
وزیر اعلیٰ سندھ کو صوبائی انسپکٹر جنرل پولیس نے بتایا تھا کہ سردار عطااللہ مینگل کے صاحبزادے کو بلخ شیر مزاری کے گھر سے اغوا کیا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اغوا کرنے والے کون لوگ تھے، 
اس روز وزیر اعظم پشاور میں تھے۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کو پشاور کے گورنمنٹ ہاؤس میں بلایا اور ان کے سامنے وہ تمام اخبارات رکھ دیئے جو اسد اللہ مینگل کے اغوا کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ 
جنرل ٹکا خان نے بڑی افسردہ آواز میں وزیر اعظم کو بتایا کہ فوج نے جھالاوان اور ساراوان میں شرانگیزی کے خاتمے کیلئے اسد اللہ مینگل کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس مقصد کیلئے ایس ایس جی کی ایک ٹیم نے کراچی میں انہیں پکڑنے کی کوشش کی تو انہوں نے فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ میں اسد اللہ مینگل اور ان کا ایک ساتھی زخمی ہوگئے۔ ایس ایس جی کی ٹیم نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور ٹھٹھہ کی طرف چل دی، راستے میں دونوں دم توڑ گئے تو ٹھٹھہ کے قریب دونوں کو دفن کردیا گیا۔ 
بھٹو صاحب نے پوچھا کہ اگر فوج کو اسد اللہ مینگل سے پوچھ گچھ کرنی تھی تو سندھ حکومت سے وارنٹ گرفتاری لے کر قانون کے مطابق کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ جنرل ٹکا خان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
وزیر اعظم کے پوچھنے پرجنرل ٹکا خان نے بتایا کہ یہ کارروائی جنرل ضیاء الحق، جنرل ارباب جہاں زیب اور جنرل اکبر کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی کی مرضی سے ہوئی۔
وزیر اعظم نے حکم دیا کہ فوری طور پر مقتولین کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے کرو۔ اگلے دن راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اس واقعے کو منظر عام پر نہ لایا جائے کیونکہ فوج کی بدنامی ہوگی اس لئے حکومت اسد اللہ مینگل کے بارے میں لا علمی کا اظہار کردے اور کہہ دے کہ مقتولین افغانستان بھاگ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسد اللہ مینگل کی وہ گاڑی کدھر جائے گی جس پر کراچی میں فائرنگ ہوئی اور جس میں خون کے دھبے میڈیا دیکھ چکا ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے جواب میں کہا کہ جناب اس واقعے کو اپنے ذہن سے کھرچ ڈالیں۔ بھٹو جیسا بڑا آدمی قومی مفاد کے نام پر خاموش ہوگیا، 
جنرل ضیاء اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی، عطاء اللہ مینگل کو ان کے بیٹے کی قبر کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ برسوں گزر گئے، اسد مینگل کی نہ لاش ملی اور نہ ہی کہیں سے زندہ ہونے کا کوئی سراغ مل سکا۔ ان کا شمار بلوچستان سے جبری گمشدہ پہلے کارکنان میں ہوتا ہے، 
جنرل ضیاالحق نے ذوالقفار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور سب سے پہلے حیدرآباد سازش کیس کے ملزمان سے ملاقات کرکے انہیں بتایا کہ ان سے ظلم زیادتی ہوئی ہے، اور یوں سب کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا، 
رہائی کے بعد عطااللہ مینگل لندن چلے گئے اور ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن قائم کی۔ 1996 میں وطن واپس آگئے۔ اُنھوں نے بی این پی کی تشکیل کی۔
1997 کے انتخابات میں ان کے بیٹے اختر مینگل ن لیگ کی حمایت سے وزیرِ اعلیٰ بنے اور وہ خود عملی سیاست سے ریٹائر ہوگئے۔
اور بعد میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور اختر مینگل کی گرفتاری سے وہ بہت دلبرداشتہ ہوگئے۔ زندگی کے آخری ایام میں اُنھوں نے میڈیا سے قطع تعلق کر دیا۔
بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینے سے انکار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ
" میں بھیڑوں کے آگے بین نہیں بجانا چاہتا " 
سردار عطا اللہ مینگل تو اس دنیا سے چلے گئے، لیکن تاریخ اس ملک کے کرتا دھرتاؤں سے ایک سوال ضرور پوچھتی ہے کہ وہ محب وطن بلوچ جو ہمیشہ کہتا تھا کہ
" اگر خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے" 
اسے زندگی کے آخری ایامِ میں کیوں یہ کہنا پڑا، 
’ہم پاکستان سے ناراض نہیں بیزار ہیں' -



Post a Comment

0 Comments