انٹرنیشنل میٹنگ آف کمیونسٹ اینڈ ورکرز پارٹیز کی 22 ویں میٹنگ منعقدہ ہوانا ، کیوبا میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی انٹروینشن۔
ڈیئر کامریڈز !
باٸیسویں انٹرنیشنل میٹنگ کا کیوبا دارالحکومت ہوانا میں انعقاد ہم سب کے لیئے بہترین موقعہ ہے کہ ہم اپنے کامریڈز اور کیوبا کے بہادر عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔ کامریڈ فیڈل کاسترو، کامریڈ چے گویرا اور کامریڈ رائول کی جدوجہد، 1959 کے کامیاب انقلاب کرنے ان کی مستقل مزاجی کے ساتھ سامراج مخالف جدوجہد اور انٹرنیشنل کمیونسٹ تحریک میں ان کے کردار پر ان کو سرخ سلام پیش کریں ۔ ہم یو ایس امپیریلزم کی طرف سے لگائی گئی امبارگو کی مذمت کرتے ہیں . ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کیوبا کی اقتصادی ناکہ بندی ختم کی جائے . ہم اپنی پارٹی کی قرار دادوں ، پریس کانفرنسز میں ہمیشہ ان پابندیوں کی مذمت کرکے کیوبا کے عوام اور اس کی انقلابی حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔
ہم کیوبا میں گذشتہ دنوں آنے والے ہریکین میں ہونے والے نقصانات پر کیوبا کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔
ہم نے پہلے بھی کیوبا کی حکومت اور اس کے عوام کی 2005 میں زلزلے کے دوران کی گئی مدد ، جس میں کیوبن ڈاکٹرز کی ٹیم نے میڈیکل شعبے میں زبردست مدد کی تھی اس پر شکریہ ادا کیا تھا . لیکن آج کیوبا میں موجود ہوتے ہوئے کیوبا کے ڈاکٹروں کی اس ٹیم نے جو پاکستانی لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی تھی اس کا بہی شکریہ ادا کریں ۔ کیوبا کی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ایک ہزار اسٹوڈنٹس کو اسکالر شپ دینے پر بہی ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر کیوبا کی انقلابی حکومت نے گذشتہ دنوں یو ایس پریزیڈنٹ جو بائیڈن کے پاکستان کے خلاف دیئے گئے بیان کی مذمت کر کے پاکستانی عوام کے دل جیت لیئے ہیں ۔ میں، ہماری پارٹی اور پاکستانی عوام کی طرف سے اس بیان پر کیوبا کی حکومت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا ، کیوبا کے عوام اور حکومت کا مستقل مزاجی سے سامراج مخالف اور کمیونسٹ موومنٹ میں ریڈیکل کردار، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے لیئے سورس آف انسپائریشن رہا ہے ۔ لیکن اب پاکستانی عوام بھی کیوبا کے اس کردار سے بے حد متاثر ہوئے ہیں ۔ اس سے ہماری پارٹی کو بہت تقویت ملی ہے ۔
کامریڈز!
دنیا سامراج کی نیو لبرل ازم کی پالیسیوں کے نتائج بھگت رہی ہے ۔ پیداوار بے انتہا ، ساتھ ہی بے روزگاری بھی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے ۔ غربت کے شکار عوام کی تعداد تصور سے باہر ہو چکی ہے ۔ جبکہ ملٹی نیشنل و ٹرانزنیشنل کمپنیوں کے منافع میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے ۔ وہ منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے ملین آف ڈالرز کما رہی ہیں ۔ اس سے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے اور طبقاتی گیپ بڑہتا جا رہا ہے ۔
پاکستان سامراج کی ایک طفیلی ریاست ہے ۔ یہاں کے اصل حکمران فوج کے وہ کاروباری جنرل ہیں جو ہمیشہ سامراج کی پراکسی جنگوں میں اپنی فوج کو کرائے کی فوج بنا دیتے ہیں ۔ جہادی پراکسیز تیار کرکے سامراج کے مفادات کی جنگیں لڑتے ہیں ۔ اس طرح جہاد کاروبار سے یہ جنرلز ملین آف ڈالرز کما رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ 40 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے ۔
پاکستان میں حکمرانوں کو اقتدار میں حصہ داری کے فیصلے واشنگٹن میں ہوتے ہیں اور ان پر عمل پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی معرفت ہوتا ہے ۔ گزشتہ حکومت بہی ان کے ایجنڈا کے تحت قائم کی گئی تھی اور موجودہ اتحادی حکومت بہی ان کے ایجنڈا کو آگے بڑہانے کے لئے لائی گئی ہے ۔سامراج کی معاشی پالیسیوں کا اطلاق پاکستان کے سول سرمایہ داروں اور بیوروکریٹک کیپیٹل کے مالکوں نے کہیں منیجر بن کر تو کہیں پارٹنر بن کر کیا ہے ۔ آج کل تو پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے ۔ سامراج کے اس استحصالی ادارے نے پوری قوت کے ساتھ سامراجی معاشی پالیسیوں کا اطلاق کیا ہے ۔ سبسڈیز تقریباً ختم کر دی گئی ہیں ۔ ٹیکس کا سائز اتنا بڑھا دیا ہے کہ ہر چیز محنت کشوں اور عام عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے ۔ اشیاء صرف خاص طور پر خوراک کا حصول ناممکن ہو گیا ہے ۔ آئے دن نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ۔ ٹیکس کا نظام ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس محدود اور انڈائریکٹ ٹیکس بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اس وجہ سے خوراک ہو کہ صاف پانی یا زندگی بچانے والی ادویات پہنچ سے دور ہو گئی ہیں ۔ اب تو فطرت کی آخری ایک نعمت آکسیجن جو مفت میں میسر ہے وہ بھی چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
آپ کے علم میں ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک فضائی و آبی آلودگی پیدا کر کے فطرت کو تباہ کر رہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں دنیا معمول سے زیادہ گرمیاں اور برساتیں دیکھ رہی ہے ۔ اس ماحولیاتی خرابی کے نتائج کا خمیازہ بھگتنے والے ممالک میں پاکستان ٹاپ پر ہے ۔ پاکستان کو 2022 میں معمول سے کئی گنا زیادہ برسات نے ہِٹ کیا ہے ۔ پاکستان کا 40 فی صد علاقہ اس سے متاثر ہوا ہے ۔پانچ ہزار کے قریب انسان اپنے زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں ۔ لاکھوں جانور پانی میں بہہ گئے ۔ اربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں ۔ متاثرہ علاقوں میں کچے مکانات مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے ، اکثر پختہ بھی رہنے کے قابل نہیں رہے ۔ عالمی اداروں کے تخمینے کے مطابق 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے ۔ پانی اب تک نہیں نکلا ، جس کی وجہ سے مختلف وبائی امراض خاص طور پر ملیریا ، ٹائفائیڈ اور جلدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔پانی کی وجہ سے آئندہ فصل لگانے کے امکان بھی کم ہیں ، سیزن نکل رہی ہے ۔ اس سے پاکستان میں خطرناک خوراک کا بحران آتا نظر آ رہا ہے ۔انسانی المیہ ہے جو آنے والے دنوں میں مزید شدید ہو گا ۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس ملک کے حکمران طبقات عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں ۔ وہاں اس المیے کی شدت کیسی ہوگی ۔
ڈیئر کامریڈز !
ان حالات میں عوام کو انقلابی قوتوں کے ساتھ منظم ہو کر حکمرانوں کے خلاف بھر پور حملہ آور ہونا چاہیئے ۔ لیکن سامراج اور سرمایہ دار طبقے پاکستان اور دنیا میں مزدوروں و محنت کشوں کو منظم ہونے سے روکنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں ۔مذدوروں کی اداروں کے اندر منظم شکل ختم کی جا رہی ہے ۔ صنعتوں میں آٹومائیزیشن و روبوٹائیزیشن کی وجہ سے مزدوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے ۔ سروسز سیکٹر کو بڑھایا جا رہا یے ۔ اس میں بھی گگ gig اکنامی کے تحت کام کے اوقات لا محدود اور تنخواہ کا نظام ختم ، سوشل سکیورٹی کو ختم کردیا گیا ہے ۔ محنت کشوں کے لیئے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیئے 20 گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے یا کام ملنے کے انتظار میں الرٹ بیٹھنا پڑتا ہے ۔ اس قسم کی استحصالی کیفیت اور لوٹ مار سے مزدور طبقے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیئے مذہب اور مسلک کے کارڈ کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ طبقاتی تضاد کو پس پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی تضاد کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ غریب خاص طور پر مزدور طبقے و محنت کش عوام کو اس ٹرنکولائیزر سے نہ صرف معاشی و سماجی محرومیوں کے اثرات بھلا کر اس زندگی کے زہر کو خوشی خوشی پینے پر تیار کر کے مرنے کے بعد کی زندگی (جو ان کو بتایا جاتا ہے کہ ابدی ہے) سنوارنے کے نشے میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ مزدور بستیوں اور جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والوں کے ہاں مذہب اور مسلک کے مضبوط قلعے بنا دیئے گئے ہیں ۔ انتخابات میں بھی یہ کارڈ خوب اپنا کام دکھا رہا ہے ۔ کمیونسٹ ، بائیں بازو و ترقی پسند قوتیں تو اس کی زد میں ہیں ہی لیکن سیکیولر جمہوری قوتیں بھی اس سے بے انتہا نقصان اٹھا چکی ہیں ۔ اس کارڈ نے پاکستان میں تو ایسی آگ لگائی ہوئی ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ مذہبی دہشت گردی ہزاروں انسانوں کو نگل چکی ہے ۔ اس نے پاکستان کے پورے سیاسی کلچر کو رجعت پسندی کے زہر میں مبتلا کردیا ہے ۔ پاکستان میں یہ سب کچھ ریاستی آشیرباد میں ہو رہا ہے ، کیونکہ پاکستان کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی تھی ۔ اس کو بدلنے کی تمام کوششوں کو سختی سے کچلا جاتا ہے ۔ کیونکہ اقتدار پر قابض قوتیں ملک کو سکیورٹی اسٹیٹ بنا کر رکھنا چاہتی ہیں ۔ تاکہ سکیورٹی ادارے طاقتور رکھنے کی ضرورت قائم رہے اور بجیٹ کا بڑا حصہ فوج پر مختص ہو ۔ اب تو بر صغیر انڈیا پاکستان پوری طرح اور ایشیا و افریکا کے اکثر ممالک اس گرمی کی شدت محسوس کر رہے ہیں ۔
ڈیئر کامریڈز!
سامراج نے قومیتی و لسانی تضاد کی بنیاد پر جنگی ماحول پیدا کردیا ہے ۔ مختلف سامراجی مراکز اپنے استحصال کے دائرے کو بڑھانے اور سپر امپیریلسٹ بننے کے لئے ان کو استعمال کر کے علاقائی جنگوں میں مبتلا ہیں ۔ نئے ورلڈ آرڈر کے قیام کے لئے جنگیں ہو رہی ہیں ۔اس جنگ کے شعلے فی الحال تو یوکرین میں بھڑک رہے ہیں ۔ جس کی قیمت ٹیکس کی صورت میں روسی عوام بھی ادا کر رہے ہیں تو یوکرینی عوام بھی ۔ ان جنگ باز حکمرانوں کی جنگجو پالیسیوں کا خمیازہ یوکرین کے شہری ، خاص طور پر بچے ، مائیں اور بوڑھے ادا کر رہے ہیں تو فوجی بھی ۔ اسی طرح روسی فوجیوں کے مرنے سے روسی ماؤں ، بیوہ ہونے والی عورتوں اور بے سہارا ہونے والے بچوں کے رونے و سسکنے کی آوازیں بھی پوری دنیا سن رہی ہے ۔ سوویت یونین ختم ہونے کے بعد وارسا پیکٹ ختم ہو گیا تو نیٹو کو بھی ختم ہونا چاہیئے ۔ اس کے اُلٹ یو ایس امریکا نیٹو کو وسعت دے رہا ہے اور روس کے قریب فوجی موجودگی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کے لیئے یوکرین کی فاشسٹ حکومت کو استعمال کر رہا ہے ۔ جو اپنی فاشسٹ پالیسیوں کے زریعے روس کی توسیع پسند اجارہ دار سرمائی کے نمائندہ حکمران کو موقع فراہم کر چکی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرے ۔ اس طرح یو ایس اپنے ملٹری انڈسٹریل کامپلیکس کو اسلحہ بیچنے کا ماحول بنا کر دیتا ہے ۔ یہ جنگ امریکا، ای یو، نیٹو کے سامراجی بلاک اور چین روس کے ابھرتے سامراجی مرکز کے درمیان سپر امپیریلزم اور نئے ورلڈ آرڈر کی جنگ ہے ۔ ایسے حالات میں ہم کمیونسٹوں کو کامریڈ لینن کی تعلیمات کو رجوع کرنا چاہیئے ۔ پہلی عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ اگر سرمایہ دار مراکز میں جنگ چھڑ جائے تو ہم کمیونسٹوں کو اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوت منظم کرکے سوشلسٹ انقلاب کرنا چاہیئے ۔ اجارہ دار سامراجی سرمایوں کی قبضہ گیری ، ایک دوسرے سے منڈیاں اور اسٹریٹجک اہمیت کے علاقے چھیننے کی ان جنگوں میں وطن عزیز کے نام نہاد نعروں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے ۔ بورجوازی کے وطن کی حفاظت کے نعروں کو رد کرنا چاہیئے ۔ لیکن افسوس کہ یوکرین کی جنگ میں یہ نہیں ہو رہا ۔
پاکستان میں بھی سامراجی مراکز کے مفادات کی ایک نئی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اس وجہ سے پاکستان میں طالبان اور داعش بہت متحرک کر دیئے گئے ہیں ۔ پاکستان کے اقتدار پر حاوی جنرلز امریکا کے ساتھ ڈبل گیم اور یکسوئی سے اس کی تابعداری کی پالیسیوں کے اختلاف میں بہت آگے جاچکے ہیں ۔ سابقہ حکومت جو آج اپوزیشن ہے ڈبل گیم والے دھڑے کی نمائندگی کر رہی ہے ، جبکہ موجودہ حکمران اتحاد میں شامل پارٹیاں دوسرے گروپ کا سیاسی چہرہ ہیں ۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر جو کل تک یو ایس امریکا کے ایجنڈا پر کر رہا تھا فوج کے سربراہ کے تقرر پر فوجی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کی وجہ سے حکومت گنوانے کے بعد پاکستانی عوام کی یو ایس مخالف رجحان سے فائدہ لینے کے لئے نام نہاد امریکہ مخالف باتیں کر رہا ہے ۔ لیکن اپنی حکومت کے دوارن اس کی پہلے والے حکمرانوں سے زیادہ پرو امریکہ پالیسیاں رہیں ۔ ان کی حکومت کا کام چلانے والے اکثر امریکا یا برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی ہی تھے ۔ وہ امریکا میں ہر ماہ 25 ہزار یو ایس ڈالر دیکر تھنک ٹینک کی خدمات بھی لے چکا ہے ۔ ہم جنرلوں کے دونوں گروہوں اور اس کی حمایت میں کھڑی دونوں سیاسی کیمپ کے خلاف مسلسل جدوجہد میں ہیں ۔ مہنگائی ، بے روزگاری کے خلاف، عوام کو سہولیات دلانے سبسڈیز بحال کرانے ، فوجی و دیگر غیر پیداواری اخراجات کم کرانے کے لئے ۔ سیلاب متاثرین کی بحالی وغیرہ کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ پاکستان کے پیزینٹ نجی سود خوروں اور مائکرو فنانس کی بینکو کے قرضوں میں جکڑ چکے ہیں ۔ان کے قرض ختم کرانے لینڈ رفارمز کرانے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ 60 اور 70 کی دہائی میں زبردست لڑائی کے بعد جو لیبر لاز بنوائے تھے ، حکمران و کاروباری جنرلوں نے ان کو غیر مؤثر کر دیا ہے ۔ ہماری پارٹی نے 18 جون 2022 کو پاکستان کے کیپیٹل اسلام آباد میں لیفٹ الٹرنیٹ کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ اس میں پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر و گلگت بلتستان کی لیفٹ پارٹیوں پر مشتمل 10 پارٹیز نے مل کر پاپولر لیفٹ الائنس بنا لیا ہے ، جو درج بالا مقاصد کے حصول ، محنت کشوں و غریب عوام کو ان کے مسائل پر جدوجہد میں لانے کی کوششیں کر رہا ہے ۔
ڈیئر کامریڈز !
ان حالات میں کمیونسٹ و ورکرز پارٹیز کی یہ میٹنگ خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم ان جنگوں میں اپنے بورجوا حکمرانوں کی توسیع پسندانہ اور سامراجی جنگوں کو رد کریں ۔ لینن کی طرح اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ جہاں کمیونسٹ پارٹیاں طاقت رکھتی ہیں وہ اپنے حکمرانوں کو چیلینج کریں اور سوشلسٹ انقلاب کریں ۔
لانگ لو سوشلزم
لانگ لو کمیونسٹ انٹرنیشنلزم
0 Comments