Ticker

6/recent/ticker-posts

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ترجمان سرخ پرچم کا اداریہ


کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ترجمان سرخ پرچم شمارہ جنوری تا مارچ 2021 کا اداریہ
جنرل باجوہ کا بیان۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسلام آباد میں ایک میٹنگ میں انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے کچھ تجاویز رکھی ہیں۔ اس پر تفصیلی تجزیہ تو اس وقت پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صفحے مکمل ھوچکے ہیں۔لیکن اتنا ضرور کہیں گےکہ اس کے پس منظر میں ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار تو نہیں۔ یا جنرل ضیاء کی طرح کوئی نئے دھوکے کی تیاری تو نہیں۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر اور انڈیا دشمنی کی بنیاد پر اتنی بڑی فوج، جنوبی ایشیا میں جی ڈی پی کے تناسب سے سب سے زیادی فوجی بجٹ اس کے علاوہ مختلف گرانٹس یہ اسی چورن بیچنے سے تو ملتی ہیں۔ ایسے میں یہ باتیں صرف نمائشی تو نہیں۔ دونوں ملکوں کو بقائے باہمی کے بنیاد پر تمام مسائل کو خود طے کرنا چاہیے۔ ملکی بجٹ کو نام نہاد دفاع پر جھونکنے کے بجاۓ غربت ، مفلسی پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے جس بھی حکمران نے چاہے سولین ہو یا فوجی اس طرح کے اقدامات شروع کرنے کی کوشش کی تو اس کو اقتدار سے ہی محروم کردیا گیا ہے۔ دیکھیں آئندہ دنوں میں یہ باتیں کتنی آگے بڑھتی ہیں۔
تماشائی جمہوریت اور اقتدار کے بھکاری۔
اسٹیبلشمنٹ اور آء ایم ایف کی کٹھ پتلی سرکار نے ایک طرف مافیاؤں کو ملک میں چھوٹ دے رکھی ہے کہ جس طرح چاہیں عوام کو لوٹیں۔ دوسری طرف آء ایم ایف کے ڈکٹیشن کے تحت سبسڈیز ختم کی جارہی ہیں۔ اس مارچ میں 14 سو ارب کی سبسڈی ختم کی گئی ہے، جس سے مہنگائی کا بڑا طوفان برپا ھونے جا رھا ہے۔تیل ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کیا جا رہا ہے۔ انکم ٹیکس میں دی گئی چھوٹ کو ختم کرکے کم آمدنی والوں کو بھی انکم ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جا رھا ہے۔ اس سب کے باوجود معیشت زوال پزیری
کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ انڈیا، بنگلادیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے۔اب تو افغانستان جیسے خانہ جنگی کے شکار ملک سے بھی کم ہے۔ آئندہ تین مہینوں میں 5 ھزار ارب کا نیا قرض لینے کی تیاری ھو رہی ہے۔ لیکن غیر پیداواری اخراجات پھر بھی کم نہیں کئے جا رہے۔ حکمرانوں، جنرلوں اور ججوں کے عیاشی کا بل عام عوام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
حزب اختلاف کی پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں اختلافات انتہاؤں کو پہنچ چکے ہیں. بظاہر یہ اختلاف اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفیٰ یا کچھ حلقوں کے بقول سینٹ میں قائد حزب اختلاف پر ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی دو بڑی پارٹیوں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی مختلف وقتوں پر ایک دوسرے سے دھوکے بازی کر کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار میں حصہ پتی کے معاملات طے کرتی رہی ہیں۔ جب اسٹیبلشمنٹ دونوں کو اقتدار میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو یہ آپس میں اتحاد کر لیتی ہیں۔ جب کسی کو اقتدار میں حصہ داری ملنے کا آسرا مل جاتا ہے تو پھر وہ اپنی اتحادی پارٹی کے ساتھ دھوکہ کرنے میں دیر نہیں کرتیں۔ بلاشک اقتدار بھی اختیار ہی ھو۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ آصف زرداری کی قیادت سے قبل تک پیپلزپارٹی کو اپنی مخالف پارٹی سمجھتی رہی ہے۔عوام میں بھی یہی تاثر رہا ہے. زرداری کی قیادت کے بعد پیپلز پارٹی کا رجحان اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلا کا ہو گیا ہے. بلوچستان میں عوامی پارٹی کی حکومت بنانے اور صادق سنجرانی کو سینٹ کا چئیرمین بنانے میں پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا اس کے لیے اربوں روپے بھی خرچ کیے۔ سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں بھی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی پیپلز پارٹی کو 77 سے لیکر 88 تک کے کردار کی وجہ سے یا ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو کی شہادت اور پاپولسٹ سیاست کی وجہ سے بہت سارے لوگ حتیٰ کہ دانشوروں کا ایک حلقہ اب والی پیپلزپارٹی کو بھی اس پس منظر میں دیکھ رہا ہے۔ نواز لیگ ہو یا جمیعت کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں ہیں۔ صرف 2018 کے انتخابات میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے جس طرح کھلی دھاندلی کر کے عمران خان کو اقتدار دیا ہے اس وجہ سے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن بار بار ادارے پر اعتماد، محبت اور ان سے وفاداری کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں ووٹ کے ذریعے اقتدار اور اختیار کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جنرلوں کے ریاست اور سیاست کے معاملات میں مداخلت ختم کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے معاشی مفادات کا خاتمہ یعنی فوجیوں کے ذرائع پیداوار کو ریاستی تحویل میں لیکر ان کو صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور کیا جائے یا امن کے زمانے میں بیرکوں تک محدود کیا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کووڈ کے لیے آنے والی امداد بھی ان کے حوالے کر دی جائے۔ کراچی کے نالوں پر قبضے کا ٹھیکہ بھی ان کے پاس ھو اور ملٹری پریڈ کے لیے اسپیشل 4 ارب کا فنڈ بھی ان کو ملے۔ جبکہ ملکی عوام بھوک، افلاس اور بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کرنے اور عورتیں جسم فروشی پر مجبور ہوں۔

کرونا وبا کے مہلک اثرات اور حکمرانوں کی بے حسی.
ملک میں کرونا وبا کی تیسری لہر خطرناک انداز سے اپنے مہلک اثرات چھوڑ رہی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۵۰ سے ۶۰ افراد روزانہ کورونا کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اصل میں مرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ یعنی سینکڑوں میں ہے۔ کورونا سے متاثر زیادہ سے زیادہ 10 فیصد افراد ٹیسٹ کراتے ہیں۔ کیونکہ اکثر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کو کورونا ہو سکتا ہے. پھر وزیر اعظم، وزراء اور اکثر سیاست دان نہ ماسک پہنتے ہیں اور نہ ہی جسمانی فاصلے کی پابندی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی شخصیات کھلے عام پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کہ کورونا کوئی مرض نہیں ہے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔ اس وجہ سے آبادی کا بہت بڑا حصہ اس وبا کو اہمیت نہیں دیتا اور وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ جتنے لوگ ٹیسٹ کرواتے ہیں ان میں متاثرین کی شرح ہر روز بڑھتی جا رہی ہے اس کے باوجود حکومت ابھی تک ویکسین کا بندوبست کرنے کےلیے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی. 23 مارچ کی پریڈ کے لیے 4 ارب مختص کیے جاتے ہیں ،لیکن ویکسین کے لیے حکومت کوئی فنڈ مختص کرنے کو تیار نہیں ہے۔ چین کی طرف سے 10 لاکھ ڈوز پاکستان کو امداد میں مل چکی ہیں۔ لیکن عام آدمی ان تک عام آدمی کی اس تک رسائی کب ھوگی کچھ معلوم نہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے آکسفورڈیونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کے ڈیڑھ کروڑ ڈوز پاکستان کے لیے امداد میں دینے کے لیے خریدے ہیں۔ معلوم نہیں یہ پاکستان کب پہنچیں گے اور حکومت اس کے متعلق کیا پالیسی بنائے گی۔ حکومت ملکی شہریوں کو اس خطرناک وبا سے بچانے کے لیے ایک ٹکہ تو خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن امداد میں ملنے والی ڈوز کو کس طرح استعمال میں لایا جائے گا اس کے متعلق بھی ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی۔اسرائیل نے46 فیصد، انڈیا اتنی بڑی آبادی کے باوجود اس تحریر کے وقت تک 30 فیصد آبادی کو ویکسین کرا چکا ہے۔
.
یکساں نصاب تعلیم.
ہم کمیونسٹوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ دوہرے تعلیمی نظام کو ختم کیا جائے۔ نجی تعلیمی ادارے ختم کر کے سرکاری شعبہ تعلیم کی سہولیات کو نہ صرف بڑھایا جائے بلکہ انہیں معیاری بھی بنایا جائے. ہمارا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم ہو امیروں کے لیے الگ، غریبوں کے لیے الگ اور مذہبی اداروں کے لئے الگ سسٹم کو ختم کر کے یکساں نصاب تیار کیا جائے۔ اس پر ملک کے تمام جمہوری اور ترقی پسند سوچ کی حامل آبادی نہ صرف متفق رہی ہے بلکہ مطالبہ کرتی رہی ہے۔
موجودہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم نہیں بنایا امیر کے لیے مہنگے اور معیاری تعلیمی ادارے جبکہ سرکاری شعبے میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے انتہا اضافہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں محنت کش اور مزدوروں کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا جوئے شیر لانے کے برابر ہو گیا ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ مذہبی اداروں کے نصاب کو سرکاری اداروں میں نافذ کر کے سرکاری اداروں کے معیار تعلیم کو مزید برباد کیا جا رہا ہے۔ اپنے ملک کے اندر تو روز گار ک وسائل موجود نہیں، تو اس یکساں نصاب تعلیم سے سند یافتہ نوجوانوں کو دنیا میں کہیں روزگار ملنے کی امیدیں بھی ختم ہو رہی ہیں. سمجھدار پروفیسرز اور تعلیمدان نہ صرف اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ملکی تعلیم کو یکساں نصاب تعلیم کے نام پر برباد مت کرو۔ اسی طرح طالب علم بھی سراپا احتجاج ہیں کہ تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینے کی بجائے ایسا نصاب ترتیب دیا جا رہا ہے جس سے مذہبی اداروں کے علاوہ ملازمت کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ دوہرے تہرے نظام تعلیم کو بھی ختم کیا جائے اور تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دے کر سائنسدان اور ٹیکنالوجسٹ پیدا کئے جائیں۔ آج دنیا میں وہی ملک ترقی کرے گا جو سائنس، ٹیکنالوجی اور فلسفے میں بہترین نظام تعلیم نافذ کرے گا۔

Post a Comment

0 Comments