! اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ھوگا
(امداد قاضی)
حالیہ دنوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ڈائیلاگ کا اچانک ایک سلسلہ شروع ھو گیا ہے ۔ اسلام آباد میں ڈائیلاگ کانفرنس کے دوران جنرل باجوہ کے بیان پر مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اور پاکستان کے معاملات میں یہ پیش رفت پہلی دفعہ ھو رھی ہے؟ نہیں ! بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرح کی پیش رفت ہو چکی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک ہندوستان اور پاکستان اپنے آپسی جھگڑے سنجیدگی اور باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کریں ۔ جنگی صورتحال کو عملا" ختم کریں ۔ دونوں ممالک کے شہریوں کے روابط اور میل جول میں آسانی پیدا کریں کیونکہ اچھے اور بہتر تعلقات کے لیئے رائے عامہ ھموار کرنا بھی ضروری ہے ۔ دونوں اطراف کی عوام کی بھی حکومتوں کو سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ آخر دونوں ممالک 73 سال سے جنگی صورتحال میں مبتلا کیوں ہیں؟ آئے دن سرحدوں پر کشیدگی ، گولا باری ۔ میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے عوام میں نفرتوں کو بڑھانا ، یہ کس مقصد سے کیا جا تا رھا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں غربت اور مفلسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر نئی معاشی لبرل پالیسیوں کے اطلاق کے نتیجے میں بیروزگاری ، مہنگائی اور مفلسی میں بہت اضافہ ھوا ہے ۔ جب سے انڈیا میں نریندر مودی اور پاکستان میں عمران خان اقتدار میں آئے ہیں ، بیروزگاری ، مہنگائی اور غربت نے تو سارے رکارڈ توڑ دیئے ھیں ۔کورونا وبا نے تو صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے ۔ دونوں ممالک کی جی ڈی پی گروتھ نہ صرف رک بلکہ گر گئی ہے ۔ پاکستان کی تو منفی میں چلی گئی ہے ۔ اس کے باوجود گذشتہ سال دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ میں بے حساب اضافہ کیا گیا ۔ کورونا سے معیشت کی تباہی کے باوجود پاکستان کا فوجی بجٹ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے جی ڈی پی کے تناسب سے زیادہ ہے ۔ ایسی صورتحال کے پیچھے جنرلوں کے مفادات وابستہ ھیں ۔ اس طرح کی صورتحال جاری رکھنے کی وجہ سے ملک کو ایک سکیورٹی اسٹیٹ بنایا ھوا ہے ۔ اس خطرے کو ظاھر کرکے بھاری بھرکم فوجی بجٹ ملتا ، بلکہ بڑی فوج اس کی ڈفینس ھاؤسنگ اتھارٹیز و دیگر کاروبار۔ اس کی وجہ سے اقتدار اعلی' میں دخل اور قومی مفاد کا رونہ روکر سیاست میں مداخلت اور غداری کے سرٹیفکیٹس کا اجراء ۔ کیا ملک کے ایسے برے حالات جاری رھنے چاہیں ۔ اس کی وجہ سے کیوں نہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضا کو ختم کیا جائے اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات کو ٹھیک کیا جائے ۔ ان ضرورتوں اور خواہشات کے مد نظر آؤ جنرل باجوہ کے دیئے گئے بیان کا کچھ جائزہ لیں ۔ ساتھ ہی ماضی میں کی گئی ایسی کوششوں کا بھی جائزہ لیں کہ ان کے نتائج کیا نکلے؟ سب سے پہلے کہ یہ بیان جنرل باجوہ کو نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کو دینا چاہیے تھا ۔ پاکستان کی عوام اور باہر کی دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کی کیا حیثیت ہے۔ انڈیا کی میڈیا میں تو کھلم کھلا کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات یا معاملات کو فیصلہ کن طور پر طے کرنے کے لئے جنرلوں سے بات کرنی ھو گی ۔ کیونکہ سویلین حکومت بے اختیار ھوتی ہے ۔ اس میں حقیقت بھی ہے ۔ موجودہ وزیراعظم تو بلکل روبوٹ ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی مضبوطی صرف طاقتور فوج سے نہیں ھوتی بلکہ معاشی ، سماجی اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ملکی ترقی کا گراف اہمیت کا حامل ھوتا ہے۔ دوسری اھم بات یہ کی ہے کہ افغانستان کو اسٹریٹیجک پارٹنر کے بجائے پہلی مرتبہ ٹریڈ پارٹنر بنانے کی بات کی ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے اسٹریٹجک ڈیبتھ کی پالیسی چل رھی تھی ۔ تیسری بات کہ انڈیا سے تمام معاملات باہمی مذاکرات سے طے کرنے چاہئیں ۔ انڈیا کو افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک تجارتی راستہ دینے کی بات کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے اندر کے معاملات کو ٹھیک کرنا ھوگا ۔ انہوں نے انڈیا سے تعلقات کشمیر مسئلے سے مشروط بھی نہیں کیئے ۔ لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ کشمیر کے معاملے کو ٹھیک کیا جائے ۔ انہوں نے سب سے اھم یہ دو باتیں کی ہیں کہ پاکستان مشرقی اور مغربی ایشیا میں تعلق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ یہ بھی کہا کہ دونوں ملک جنگی ماحول کی وجہ سے اپنے وسائل کو ضائع کر رہے ہیں جو غربت اور مفلسی کو کم کرنے اور ملکی ترقی پر خرچ کر سکتے ہیں ۔ یہ بہت ھی اھم نقاط ہیں ۔ لیکن کیا یہ پالیسی فوج کی بھی ہے یا صرف جنرل باجوہ کی ہی ہے ۔ کیوں کہ ہمارے سامنے یہ بات پہلے آ چکی ہے کہ نواز شریف ہندوستان سے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اسے جنرل پرویز مشرف نےقبول نہیں کیا اور کارگل جنگ چھیڑ کر ساری کوششوں کو پیچھے دھکیل دیا جب خود اقتدار میں آئے تو انڈیا سے کشمیر سمیت تمام معاملات طے کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے مطابق اگر مشرف کو نہ ہٹایا جاتا تو ہفتہ 10 دن کے اندر انڈیا کے ساتھ سارے کے سارے معاملات ایگریمنٹ تک پہنچ جاتے ۔ اس کے جانے کے چند ہی دنوں بعد جنرل کیانی نے وزارت خارجہ کے افسروں کو بلا کر کہا کہ انڈیا کے ساتھ معاملات کے سلسلے میں یہ پرویز مشرف کی پالیسی تھی ہمارے ادارے کی پالیسی نہیں تھی ، کور کمانڈر اس سلسلے میں ریزرویشن رکھتے ہیں ۔ یہ ہی سوال آج بھی بنتا ہے کہ اس کے بیانیے کو ادارے کا اعتماد بھی حاصل ہے یا نہیں؟ کیونکہ کہ جنرل ایوب کے زمانے میں تاشقند معاہدے کے وقت سوویت یونین کی قیادت نے دونوں ملکوں کو تجویز دی تھی کہ آپ کب تک آپس میں لڑتے رہیں گے ، دونوں مملک کو جوائنٹ ڈیفینس سسٹم قائم کرنا چاہیے ۔ 65 کی جنگ کے بعد جب تاشقند معاہدہ ہو چکا تو اسے امریکہ نے ایوب کے خلاف استعمال کیا ۔ امریکہ ناراض تھا کہ ایوب نے سوویت یونین کو ثالث کیوں قبول کیا ۔ اگر ایوب خان موجود ہوتے تو شاید جوائنٹ ڈیفنس سسٹم قائم ہو جاتا ۔ لیکن پاکستانی ادارے اور امریکہ کی مخالفت تھی ۔ ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے میں ایک اھم عنصر یہ بھی تھا ۔ یعنی سویلین ہوں یا فوجی حکومتیں جس نے بھی انڈیا کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کی اس کی حکومت نہیں رہی ۔ وہ چاہے بے نظیر ہو ، نواز شریف یا جنرل مشرف ۔ اب سوال یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے جو باتیں کہی ہیں اس میں وہ سنجیدہ بھی ہے تو کیا وہ اپنے ادارے کو یہ چیزیں منوا سکیں گے یا اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو مشرف اور ایوب کا ہوا؟ اس پوری صورتحال میں یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ کل تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر زبانی فائرنگ کے ساتھ سرحدوں پر بھی روز فائرنگ کر رہے تھے ۔ کئی نہتے لوگ دونوں طرف مر رہے تھے ۔ پھر اچانک دونوں ممالک کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے مذاکرات کیئے اور کہا کہ اب فائرنگ نہیں ہو گی اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان ڈائیلاگ بھی شروع ہو گیا ۔ اطلاعات ہیں کہ یو اے ای کے کراؤن پرنس نے رول پلے کیا ہے ۔ کیا یو اے ای کا اتنا اثر ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان میں صلح کروا سکے؟ در اصل اس کے پیچھے امریکہ ہے ۔ امریکی صدر بائیڈن نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک اہم بیان دیا تھا کہ امریکہ واپس آ گیا ہے ۔ خارجہ پالیسی اور پرانی سامراجی پالیسی پر دوبارہ عمل تیز کر دیا ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ انڈیا پاکستان میں کشیدگی ختم کراکر یکسوئی کے ساتھ چین کا مقابلہ کیا جائے یعنی جب امریکی مفاد میں ھو تو دونوں ملکوں میں جنگ کے شعلے بھڑکیں ، جب ان کے مفاد میں ھو تو امن کے راستے پر چلیں ۔ دوسری طرف شھنگائی تعاون کونسل کے گذشتہ اجلاس میں چین، روس، پاکستان اور انڈیا کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جو شاید اسی سال میں ہوں گیں ۔ یہ ایک مثبت عمل ہے ۔ اگر امریکہ چین کے ساتھ لڑائی کے لیئے پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے انڈیا کے ساتھ معاملات طے کیے جا رہے ہیں تو یہ بہت خطرناک عمل ہے اور پاکستان کو بھیانک نتائج بھگتنے پڑیں گے ۔ اصولا" پاکستان کو تمام علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر اور پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنے چاہیئں ۔ پاکستانی میڈیا کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ اس میں حقیقت کو بیان کرنے اور غلط کو غلط کہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ حکمران طبقات کی سیاسی پارٹیاں فوج کی بی ٹیم بن گئی ہیں۔ کچھ ان سے ناراضگی کی وجہ سے تنقید کر رہی ہیں، لیکن صرف افراد پر اور ادارے کو اپنا ادارہ، قومی حفاظت کا ادارہ قرار دے رہے ہیں۔ جب فوج کے سربراہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کی بات آتی ہے تو یہ اس کے حق میں ووٹ بہی دیا جاتا ہے۔ بحیثیت ایک ادارے کی ریاست اور سیاست میں مداخلت اور ایک دفاعی اداری کا کاروبار سے کیا لینا دینا اس پر بات نہیں کرتیں۔ ان کی حالت کافی خراب ہو چکی ہے۔ دانشور ان معاملات پر بات نہیں کر سکتے جو بات کرتا ہے اسے انڈین ایجنٹ کہہ کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ ہم کمیونسٹ اور بائیں بازو قوتیں ہمیشہ علاقے میں امن کی خواہاں رہی ہیں۔ انڈیا، افغانستان میں مداخلت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکا نے جنگ ہی پاکستان سے لڑی۔ جسکا آج ھر طرف سے اعتراف کیا جا رھا ہے۔ انڈیا جب سوویت بلاک کا حصہ تھا اس وقت پاکستان امریکی تابعداری میں وھاں مداخلت کرتا رھا۔ اب پاکستان کو کسی کی پراکسی جنگ نہیں لڑنے چاہیے۔ عالمی پلئیرز کے مفادات کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انڈیا پاکستان میں بہت سارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور معیشت بری طرح تباہ ہو رہی ہے اس وجہ سے جنگی حالات ختم کر کے امن قائم کرنا چاہیے
0 Comments