آؤ ملکر نسلی لڑائی کی سازش کو ناکام بنائیں
امداد قاضی
وفاقی حکومت و اسٹیبلشمنٹ نے اسٹیبلشمنٹ کے سندھ میں پرانے اسپیئر ٹائر ارباب غلام رحیم کو میدان میں اتارا ہے ۔ اس نے اُن قوم پرستوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں جو اقتدار میں حصہ پتی کی سیاست کرتے ہیں اور قوم پرستی کو صرف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی دوران کراچی میں سندھیوں اور پختونوں کے درمیان فساد پیدا کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ چند تخریب کار اور کرائے کش پختونوں سے عام سندھیوں پر حملے کروائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ مقامات پر پختونوں کے خلاف اس طرح کی کاروائیاں ہوئی ہیں ۔سوشل میڈیا کے پروپیگنڈا کا شکار سازشوں کی سمجھ سے عاری اور کچھ غیر جمہوری قوتوں کے پیرول پر موجود سندھیوں کی بہت اشتعال انگیز پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا پر سخت بیانات چل رہے ہیں۔ سندھ سے پٹھانوں اور افغانیوں کو نکالنے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح چند دن پہلے ایم کیو ایم والوں نے ایسی صورتحال پیدا کی تھی جس سے نظر آ رہا تھا کہ سندھیوں اور مہاجروں میں کوئی نئی لڑائی شروع کرانے کی سازش تیار کی گئی ہے ۔ شاید کراچی کو خون سے نہلانے کی کوئی نئی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ اسی طرح ویژن 2050 کے نام سے بھی کچھ سازشی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کراچی کو سندھ سے الگ کر کے کوئی نیا اسٹیٹس دیا جائیگا ۔ اس صورتحال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کوئی بڑی کاروائی ہونے والی ہے۔ عوام کو آپس میں لڑوانے والی قوتیں نہ سندھ کی دوست ہیں نہ عوام کی ۔ یہ بات ضرور ذہن میں رکھی جائے کہ نواز لیگ ہو، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف یہ سب بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں۔ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر عوام دشمن کام کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہیں ۔ ان سے سندھ کے کسی عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ انہیں جو ٹاسک اسٹیبلشمنٹ سے ملیگا اس پر یہ عمل کریں گی۔ عوام سے جمع کیے گئے ٹیکس کے اربوں کھربوں روپے ، سندھ کی گیس، کوئلے سے اربوں کھربوں روپے کی حاصل ہونے والی آمدن، کراچی کے سمندر سے حاصل ہونے والی آمدن اور بندرگاہوں سے حاصل ہونے والی آمدن اقتدار پر قابض قوتیں آپس میں بندر بانٹ کر لیتی ہیں ۔ اگر یہ رقم سندھ کی عوام پر خرچ کریں تو کوئی سندھ کا باشندہ بھی بے روزگار نہ ہو۔ ہر ایک کو اس کے گھر کے قریب روزگار میسر ہو، انہیں علاج اور اعلی تعلیم تک کی بہترین سہولت میسر ہوں ۔ ہر خاندان کو حکومت کی طرف سے اچھا سا انسانوں کے رہنے جیسا گھر بھی مہیا ہو سکتا ہے۔ ان کو مختلف وقتوں میں اقتدارکا موقع ملا ہے لیکن یہ سب اسٹیبلشمنٹ سے مل کر سرمایہ بٹور کے کھا جاتے ہیں ۔ عوام کو کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ ان کے درمیان لڑائی بھی اسی چیز کی ہے ۔ یہ صورتحال تقاضا کر رہی ہے کہ سندھ میں محنت کش طبقے کو منظم کیا جائے۔ مزدوروں اور کسانوں کو ان نسلی یا فرقہ وارانہ لڑائیوں سے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ حکمران طبقات محنت کشوں و عام عوام کو آپس میں لڑاکر مصروف رکھیں گے اور خود مال کی بندر بانٹ پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہونگے ، ایک دوسرے کو گھونسے مار رہے ہونگے ۔ ہم کمیونسٹوں کی ذمہ داری ہے کہ کسانوں کو کسانوں کے طبقاتی محاذ میں منظم کریں۔ مزدوروں کو مزدوروں کے محاذ میں ،طلبا کو طلبا کے محاذ میں ، خواتین کو خواتین کے محاذ میں اور کمیونسٹ پارٹی جو محنت کش طبقے اور عام عوام کی نمائندہ پارٹی ہے اس کے پلیٹ فارم پر لوگوں کو اکٹھا کر کے طبقاتی لڑائی لڑنے کے لئے تیار کریں ۔ طبقاتی لڑائی کے ذریعے ہی ہم ان سے وہ دولت چھین سکتے ہیں جو ہمارے خون پسینے سے پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے اوپر خرچ ہونے کے بجائے ان کی تجوریوں میں جمع ہو رہی ہے۔ ان کے اثاثے بڑھانے میں کام آتی ہے۔ وہ یہ سرمایہ باہر لے جاکر فیکٹریاں لگاتے ہیں اپنے شاپنگ مال کھڑے کرتے ہیں اور رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگاتے ہیں۔
0 Comments