12 ستمبر کو کراچی پریس کلب میں پروگریسو الاٸنس کی منعقدہ پریس کانفرنس کی قرارداد کا متن
!ہمارے معزز صحافی دوستو
منافع کے لالچ میں سامراجی سرمایہ داری نظام نے فطرت کو جس بری طرح استعمال کیا ہے اس کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ انسان اور فطرت کو تباہی سے دوچار کردیا ہے ۔ آلودگی پیدا کرنے والے ان ممالک کے جرائم کے نتائج پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں ۔ اسی کا اثر ہے کہ پورے ملک میں برسات ، سیلاب اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے سے پورا ملک غم ، تکلیف اور صدمے میں مبتلا ہے ۔ برسات نے ملک کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں تباہی مچا دی ہے ۔ یہ برساتی سیلاب پختونخوا اور گلگت کا نقصان کر کے نیچے کی طرف آگیا ۔ یہ علاقے سطح سمندر سے ہزاروں فٹ اونچے ہیں اس وجہ سے پانی نچلے علاقوں کی طرف آگیا ۔ سندھ ، بلوچستان اور سرائیکی وسیب کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئے ہیں ۔ سرائیکی وسیب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن ، بلوچستان کے سبی ، نصیر آباد ڈویژن اور لس بیلا کے علاقے ڈوب چکے ہیں ۔ سندھ میں کراچی چھوڑ کر پوری سندھ ڈوب چکی ہے ۔ سندھ کی زراعت مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے ۔ پورے ملک کا پانی دریائے سندھ کے ذریعہ سمندر میں جاتا ہے ۔ سیلابوں کا پانی بھی سرائیکی وسیب کا ہو یا بلوچستان کے سندھ سے ملحقہ علاقوں کا پانی سندھ سے گزر کر سمندر میں جاتا ہے ۔ لیکن برساتی نالوں اور اس کے فطری و تاریخی گزرگاہوں پر سندھ کے وڈیروں خاص طور پر سرکار میں شامل بھیڑیے وڈیروں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ برساتی گزرگاہوں پر کاشت کی ہے ، فارم ہاؤس بنالیئے ہیں ۔ اس وجہ سے پانی سمندر یا دریا کی طرف جا نہیں پا رہا ۔ مزید یہ کہ کئی کینال بند نہیں کئے گئے ، ان میں بدستور پانی چل رہا ہے ۔ زرداری دور حکومت میں سرکار میں شامل وڈیرے جو مختلف اضلاع کے بادشاہ بنائے گئے ہیں نےاپنی زمینوں کا پانی بھی مشینوں کے ذریعہ سرکاری یعنی عوام کے پیسے خرچ کر کے نکال کر ان نہروں میں ڈال رہے ہیں ۔ زمینیں پہلے ہی پانی سے بھری ہوئی ہیں اس کے نتیجے میں مزید تباہی پھیل رہی ہے ۔ مذکورہ علاقوں میں ہزاروں گاؤں گوٹھ اور قصبے زیر آب ہیں ۔ ان علاقوں میں اکثریت غریب آبادی آباد ہے ۔ ان کے کچے گھر تو سب کے سب گر چکے ہیں ۔ پختہ گھر بھی رہنے کے قابل نہیں رہے ۔ سرائکی وسیب ، سندھ اور بلچستان کے کئی شہر ابھی تک زیر آب ہیں ۔ ہزاروں انسان موت کی آغوش میں جا چکے ہیں ۔ لاکھوں جانور مرگئے ہیں یا پانی بہا کر لے گیا ہے ۔ 15 دن سے زیادہ عرصے سے پانی کھڑا ہے اس وجہ سے انسانوں اور جانوروں میں مختلف بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ ملیریا ، ٹائفائیڈ ، پیٹ کی بیماریاں اور خارش عام ہے ۔ مچھروں نے دن رات عذاب پیدا کیا ہوا ہے ۔ پینے کے پانی کے سارے ذریعے ختم ہو گئے ہیں ۔ خوراک یا تو ڈوب گئی یا بھیگ گئی جو ساتھ لے آئے تھے وہ ختم ہو گئی ۔ اب بچے ، عورتیں مطلب کہ انسان کھلے آسمان کے نیچے دھوپ اور حبس میں بھوکے پیاسے موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ عوامی زبان میں کہا جائے کہ قیامت برپا ہے ۔
ان حالات میں بے حس اور نا اہل حکمران ہیلی کاپٹر پر تفریحی دوروں کے علاوہ متاثرین کی مدد کرتے کہیں نظر نہیں آتے ۔ آفات کے دور میں کام کرنے والے ادارے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے جیسے ادارے صرف اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں لیکن کہیں ریسکیو نہیں کر رہے ۔ حزب اختلاف کا لیڈر عمران خان اقتدار سے نکالے جانے کے غم میں مبتلا ہے اور ان کی نظر میں سیلاب کی تباہ کاریاں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ انسانی المیہ موجودہ جرنیلی ، وڈیرہ شاہی اور سرمایہ داری گٹھ جوڑ والے نظام کا نتیجہ ہے ۔ حکمران 24 گھنٹے بدعنوانی اور عیاشی میں غرق ہیں ۔ عوام پر بھاری بھرکم ٹیکس لگا کر وہ رقم کھا جاتے ہیں اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں ۔ نہ عوام کو روزگار دیتے ہیں نہ کوئی سبسڈی دے رہے ہیں ۔ دریاؤں ، نہروں کے پشتوں کو مضبوط کرنے کے لیئے رکھے گئے اربوں روپے ہڑپ کر لیتے ہیں ۔ الٹا اس سے فاریسٹ لینڈ پر سے جنگلات کاٹ کر زمین زیر کاشت لاکر فطری ماحول کو خراب کر کے ماحولیاتی اور موسمیاتی تباہی کے اسباب پیدا کرتے ہیں ۔
دوستو !
ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کے لالچی ، خود غرض اور انسانی رویوں سے عاری حکمران سیلابی صورتحال کو مزید خراب کر کے اور پانی کو روک کر دنیا سے امداد اور قرض حاصل کرنے کے لیئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ آج تک ملنے والی امداد کا استعمال کہیں نظر نہیں آ رہا ۔ نہ خیمے ، نہ مچھر دانی ، نہ خوراک ، نہ کپڑے نہ میڈیکل کی سہولت دے رہے ہیں ۔ دنیا کے کئی ممالک سے امدادی سامان پہنچ چکا ہے وہ بھی یا تو وڈیروں یا ڈپٹی کمشنروں کے گوداموں میں پڑا ہے ۔ مطلب کہ انتہائی ظلم والا رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔
ہم پروگریسو الائنس جو کہ پاکستان اور اس سے ملحق جموں کشمیر و گلگت بلتستان کی پارٹیوں پر مشتمل ہے ، کے پلیٹ فارم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امداد کی تقسیم عدالتی نگرانی میں متاثر لوگوں کے بہتر شناخت رکھنے والے افراد پر مشتمل کمیٹی کے ذریعہ کی جائے ۔ این جی اوز اور مخیر حضرات کے رحم و کرم پر اس کام کو نہ چھوڑا جائے ، وسائل ریاست مہیا کرے یہ اس کی ذمہ داری ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنے کے لیئے سچے جھوٹے امدادی اداروں کے ساتھ ساتھ رینجرز سمیت سرکاری ادارے شہریوں سے امدادی سامان اکٹھا کر رہے ہیں ، یعنی ریاست دیوالیہ ہے کہ وہ سرکاری وسائل اور غیر ملکی امداد کے باوجود این جی اوز والا کام کر رہی ہے ۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ امداد کی تقسیم کو شفاف بنانے کے لیئے متاثر گوٹھوں و شہروں کی کمیٹیاں بنا کر جلد از جلد جنگی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کی جائیں ۔
۔ فوری طور پر نقشوں میں موجود برساتوں اور سیلابوں کی فطری اور تاریخی گزرگاہوں پر قبضے ختم کراکر کر پانی کو سمندر میں جانے کا راست دیا جائے ۔
۔ ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی کو سمندر تک پہنچانے میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے اور ان کی کھدائی کرائی جائے ۔
۔ ٹینٹ سٹی یا ٹینٹ ولیج بنا کر اسکول و کالج کی عمارتوں کو خالی کر کے تعلیمی سرگرمیاں بحال کی جائیں ۔
۔ متاثرین میں راشن تقسیم کیا جائے ۔ انہیں پینے کے لیئے صاف پانی مہیا کیا جائے ۔
۔ میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرکے انسانوں اور جانوروں کے لیئے موبائل اسپتالوں کا انتظام کیا جائے
۔ انہیں مچھر دانیاں مہیا کی جائیں ۔
۔ فوت ہونے والے کا 10 لاکھ روپیہ معاوضہ اور زخمی کا علاج سرکار خود کرائے ۔
۔ فصلوں اور جانوروں کے نقصان کا معاوضہ ادا کیا جائے ۔
ہمارے صحافی ساتھیو !
ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بارش اور سیلاب متاثرین کی بحالی از سر نو آبادکاری ایک طویل سلسلہ ہو گا۔ اس کے لیئے سرکاری خرچ پر جدید شہر اور قصبے تعمیر کیئے جائیں ۔
ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان سامراجیوں کے کسی نئے خونی کھیل کا حصہ نہ بنے اور پختونخوا میں طالبان کو منظم ہونے سے روکے ۔ اس بار امریکہ ، یورپ اور چین ، روس کے مفادات کی جنگ داعش جیسی خونخوار اور طالبان جیسی قاتل کرائے کش تنظیموں کی معرفت لڑی جائےگی ، پاکستان اپنے کو اس سے بچائے ۔
۔ امداد قاضی ۔ کنوینر پروگریسو الائینس ، سیکریٹری جنرل کمیونسٹ پارٹی پاکستان ۔
۔ صابر علی حیدر ۔ ڈپٹی کنوینر ، جنرل سیکریٹری پاکستان انقلابی پارٹی
۔ نور احمد کاتیار ۔ عوامی تحریک
۔ سید لال شاہ۔ عوامی جمہوری پارٹی
۔ عبدالخالق جونیجو
جیئے سندہ محاذ
۔ احتشام
گلگت بلتستان بچاؤ تحریک
۔ ریاض اشعر
جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی
۔ سلطان احمد
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی
۔ تیمور رحمان
مزدور کسان پارٹی
۔ تاج مری
نیشنل پارٹی
۔ افضل خاموش
پاکستان مزدور کسان پارٹی
۔ شفقت بخاری
پ
اکستان سرائیکی پارٹی
0 Comments